• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے اپنی بلٹ پروف ڈبل کیبل گاڑی کا دروازہ بند کرنے میں صرف چند سیکنڈ کی تاخیر ہوئی کہ اغوا کار نائن ایم ایم پستول میری پسلیوں میں چبھونے کی حد تک گھسا تے ہوئے گاڑی میں داخل ہوچکے تھے،مین روڈ پر گاڑیوں اورموٹر سائیکل پر سوار لوگ مجھے اغوا ہوتے دیکھ کر کچھ اس طرح گزر رہے تھے جیسے کسی فلم کی ریکارڈنگ دیکھ رہے ہوں، ابھی چند منٹ قبل جن پھل والوں سے میں نے پھل خریدے تھے وہ بھی ساکت و جامد کھڑے تھے شاید انھیں ڈر تھا کہ اگر انھوں نے آواز نکالی تو اغواکار انھیں بھی اپنے ساتھ لے جائیں گے یا فائرنگ کرکے زخمی یا قتل کردیں گے،میں نے بھی جب سے اپنی ڈبل کیبن گاڑی بلٹ پروف کرائی تھی کچھ زیادہ ہی بے فکر ا ہوچکا تھا اسی لئے گارڈز بھی ساتھ رکھنا چھوڑ دیئے تھے،یاپھر کراچی میں حالات کی بہتری کے جو شادیانے بجائے جارہے تھے ان سے میں بھی اس قدر متاثر ہوگیا تھا کہ سب کچھ ٹھیک لگنے لگا تھا لیکن زمینی حقائق اس کے منافی تھے جس کا ثبوت میں خود تھا جو دن دیہاڑے اغواہوچکا تھا، میری ڈبل کیبن گاڑی میں سوارتین افراد نے مجھے دھکا دیکر درمیان میں بٹھا دیا اور گاڑی چلاتے ہی ڈرانے دھمکانے کے لئے گالم گلوچ اور قتل کی دھمکیاں دینا شروع کردیں،آگے تین افراد کا بیٹھنا مشکل ہورہا تھا لہذا مجھے گاڑی کے اندر سے ہی پیچھے منتقل کردیا گیا،جبکہ پیچھے بیٹھے اغواکار نے مجھے خاموش رہنے کی ہدایت کی اور خود اپنے بیگ سے ایک مشین نکال کر کچھ کرنے میں مصروف ہوگیا، چند لمحوں بعدہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ میرے ساتھ بیٹھا اغواکار بڑی مہارت سے میری گاڑی میں موجود ٹریکر کو ناکارہ بنانے میں مصروف ہے اور چند منٹ بعد ہی وہ اس میں کامیاب ہوچکا تھا، ایک سفاکانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اپنے آگے والے ساتھیوں کو آگاہ کیا کہ اب ٹریکر ناکارہ ہوچکا ہے وہ پرسکون ہوکر گاڑی چلائیں، تینوں اغواکار ٹوٹی پھوٹی سندھی زبان میں گفتگو کررہے تھے لیکن مجھے یہ انداز ہ نہیں ہوسکا کہ ان کا تعلق کہاں سے ہے، پچھلی سیٹ پر بیٹھا اغوا کار ٹریکر کو ناکارہ بنانے کے بعد میری جانب متوجہ ہوگیا اس نے میری تلاشی لینا شروع کی اور تمام کاغذات اور رقم نکال کر اپنی جیب میں منتقل کرلی، وہ مجھ سے میرے کاروبار اور بینک بیلنس کے بار ے میں مسلسل معلوم کررہا تھا،جیسے جیسے وہ گاڑی مختلف علاقوں میں گھمارہے تھے اور آپس میں بات چیت کررہے تھے اس سے یہ اندازہ ہورہا تھا کہ ان کا ارادہ مجھے اپنے ساتھ ہی کہیں لے جانے کا ہے،ابھی تک میرے حواس پوری طرح قابو میں تھے،لیکن اب مجھے اپنی اہلیہ اور بچوں کی وہ باتیں یاد آرہی تھیں جو اکثر مجھے کہا کرتی تھی کہ آپ کے پاس سب کچھ ہے آپ کیوں نہیں اپنے دوستوں کی طرح کسی ترقی یافتہ ملک میں چل کر رہتے یہاں کیوں اتنے خطرناک حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں لیکن میں اسے ہمیشہ ہی سمجھاتا کہ جو مزہ اپنے ملک میں ترقی کرنے کا ہے وہ باہر نہیں ہے پھر یہاں اللہ تعالیٰ نے کتنے لوگوں کی روزی ہماری ذات سے جوڑی ہوئی ہے،پھر یہاں رینجرز کے اعلیٰ حکام ہوں یاپولیس کہ یا پھر اہم ترین سیاستداں سب سے اچھی سلام دعا ہے ایک آواز پر سب جمع ہوجاتے ہیں، کراچی کی کاروباری برادر میں ایک اعلیٰ مقام ہے کاروباری تنظیموں میں اہم رکن کے طور پر جانا جاتا ہوں یہ چیزیں باہر نصیب نہیں ہونگی، میری دلیلیں میری اہلیہ اور بچوں کی زباں بندی کے لئے کافی تھیں لیکن آج سب کچھ الٹ ہوچکا تھا اور میں اغوا کاروں کے رحم و کرم پر کراچی کی سڑکوں پر پچھلے آدھے گھنٹے سے بے یارو مددگار گھوم رہا تھا اور کچھ معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے، کچھ دیر بعد میں نے اغواکاروں سے درخواست کی کہ بھائی میری نظر بھی کمزور ہے،بلڈ پریشر کا بھی مریض ہوں میرا کوئی مزاحمت کا پروگرام بھی نہیں ہے لہذا میری آنکھوں پر سے پٹی تو کم از کم ہٹالی جائے، میری اس التجا کا اغوا کاروں پر اثر ہوا اور انھوں نے میری آنکھوں سے پٹی ہٹادی، آنکھیں کھلیں تو دیکھا میں اپنی ہی فیکٹری کے سامنے سے گزر رہا ہوں لیکن یہاں بھی کسی نے میری گاڑی پر توجہ نہ دی، میری فیکٹری کے سامنے میرے جاپان سے آئے ہوئے دوست جنھیں میں نے کھانے پر مدعو کیا تھا انکی گاڑی موجود تھی لیکن میرے دونوں فون بند تھے نہ جانے وہ بھی کیا سوچ رہے ہونگے، اغوا کاروں کا رخ اب شہر سے باہر جانے والے راستے سپرہائی وے کی جانب تھا، ٹریکر پہلے ہی ناکارہ ہوچکا تھا، میرے پاس اب کوئی اور راستہ نہ تھا سوائے خاموشی سے اپنے آپ کو اغوا ہوتے ہوئے دیکھ سکوں، اغوا کار سپر ہائی وے جانے کے لئے مین روڈ کا سہارا نہیں لے رہے تھے بلکہ فیکٹری والے علاقے سے ٹول پلازہ کی جانب بڑھ رہے تھے،میری طبعیت اب واقعی خراب ہونے لگی تھی،بلڈ پریشر ہائی ہوتا محسوس ہورہا تھا جبکہ قے بھی محسوس ہورہی تھی لیکن میرے حواس پوری طرح بحال تھے میں نے اغواکاروں سے ایک اور درخواست کی کہ بھائی میں بیمار آدمی ہوں، بلڈ پریشر ہائی ہے اور شدید الٹی بھی محسوس ہورہی ہے آپ یہ گاڑی لے جائیں لیکن مجھے چھوڑ دیں یہ آپ کا مجھ پر احسان ہوگا، میری التجا میں نہ جانے کیا اثر تھا یا انھیں گاڑی میری الٹیوں سے خراب ہونے کی فکرتھی کہ اغوا کاروں نے میری بات مان لی،شاید انھیں اندرون سندھ یا بلوچستان کے لئے ایسی ڈبل کیبن گاڑی کی ہی ضرورت تھی، لہذا انھوں نے ایک سنسان جگہ گاڑی روک کر مجھے اتارا اس تاکید کے ساتھ شور کہ پولیس کو خبر کی تو اچھا نہیں ہوگا، انھیں شاید یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہاں سے میری فیکٹری کا راستہ صرف دس منٹ کا ہی تھا اغوا کاروں سے رہائی پاکر ایک موٹرسائیکل والے سے لفٹ لیکر میں دس منٹ میں اپنی فیکٹری میں موجود تھا،جہاں میرے پارٹنر اور میرے جاپان سے آئے ہوئے دوست میرافون بند ہونے اور رابطہ نہ ہونے کے باعث پریشان تھے، میں نے چند لمحوں میں ہی رینجرز پولیس اور تمام قانون نافذکرنے والے اداروں کو واقعہ سے آگاہ کیا اور پھر زندگی میں مگن ہوگیا،دو دن بعد اطلاع ملی کہ آپکی گاڑی اندرون سندھ سے برآمد کرلی گئی ہے، ہوا کچھ یوں کہ اغوا کار اندرون سندھ تیزرفتاری کے ساتھ گاڑی لے جارہے تھے کہ راستے میں انھوں نے کسی علاقائی وڈیرے کی گاڑی کو ٹکر ماری،وڈیرے نے فون کرکے آگے سے روڈ بلاک کروادی جس کے بعد اغواکار گاڑی چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ پولیس نے دو دن بعد گاڑی میرے حوالے کردی اور یوں گاڑی سمیت اغوا کی شروع ہونے والی داستان میری رہائی اور گاڑی کی واپسی کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہوگئی۔

.
تازہ ترین