• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شوکت خانم کینسر میموریل اسپتال اینڈ ریسرچ سینٹرکراچی کا سنگ بنیاد 29 دسمبر 2016ء کو ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی کراچی میں رکھا گیا اس سے پہلے لاہور اور پشاور میں قائم ہونے والے شوکت خانم اسپتال کا سنگ بنیاد بھی 29 دسمبر کو رکھا گیا تھا اسپتال کی روایت اور پالیسی کے مطابق شوکت خانم میں زیر علاج جامشورو سے تعلق رکھنے والا کینسر کا ایک مریض بچہ ولید اقبال اس تقریب کا مہمان خصوصی تھا۔ شوکت خانم کراچی اسپتال کی تعمیر کا منصوبہ ایک دہائی پہلے کا تھاجو اب شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے۔ اسپتال انتظامیہ نے اس سے پہلے کراچی شہر سے باہر کینسراسپتال کی تعمیر کے لئے زمین پہلے بھی حاصل کی تھی لیکن بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے باعث وہاں پر شوکت خانم اسپتال کی تعمیر کا منصوبہ شروع نہ کیا جاسکا۔ کچھ عرصہ قبل ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کراچی نے شوکت خانم اسپتال کو اپنی پرائم لوکیشن پر انتہائی مناسب قیمت میں 20 ایکڑ زمین فراہم کی جس کے بعد اب اس کا سنگ بنیاد رکھے جا نے کے فوراًبعد تعمیر شروع ہو چکی ہے۔ پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی میں شوکت خانم اسپتال کی تعمیر سے نا صرف کراچی کے عوام بلکہ اندرون سندھ کے کینسر میں مبتلا غریب مریضوں کا علاج بھی جدید سہولتوں سے آراستہ اس اسپتال میں کیا جا سکے گا۔ شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کراچی کی تعمیر کی لاگت کا تخمینہ 4 ارب 50 کروڑ روپے لگایا گیا ہے جبکہ اس کا پہلا فیز 2 سال 6 ماہ کی مدت میں مکمل ہوگا اس کثیر منزلہ کینسر اسپتال میں 29 دسمبر 2019ء سے کراچی اوراندرون سندھ کے غریب کینسر مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنا شروع کر دے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اسپتال کی باقی ماندہ عمارت کی تعمیر کا کام جاری رہے گا۔ اس جدید ترین منصوبہ میں آپریشن تھیٹرز، انتہائی نگہداشت، کیموتھراپی بے، ان پیشنٹ رومز اور آئوٹ پیشنٹ کلینکس موجود ہونگے ان کے ساتھ جو نئے شعبہ جات کام شروع کریں گے ان میں سرجیکل اونکالوجی ، اینستھیزیا اور ریڈیالوجی جس میں سی ٹی اسکینرز، ایم آر آئی اسکینرز، ایکسرے، فلیور و اسکوپی، الٹراسائونڈ، میمو گرافی اسکینرز اور پی ای ٹی سی ٹی اسکینر بمعہ سائیکلوٹرون جیسے جدید ترین آلات نصب کئے جائیں گے۔ اس کے علاوہ انٹرنل میڈیسن، نیوکلیئر میڈیسن جس میں ایس پی ای سی ٹی، سی ٹی گیما کیمروں کی تنصیب ہوگی جبکہ پتھالوجی میں ہیما ٹولوجی، کلینکل کیمسٹری، مائیکرو بیالوجی، سائیٹولوجی اور بلڈ بنک بمعہ این اے ٹی ٹیسٹنگ کی سہولتیں میسر ہونگی۔ شوکت خانم اسپتال کراچی کا بننا انتہائی خوش آئند ہے اس کی تعمیر شاید پشاور سے پہلے ہی شروع ہو جانی چاہئے تھی لیکن دیر آید درست آید۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں صحت سمیت دیگر سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں شوکت خانم اسپتال کا بننا ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوگا۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب شوکت خانم کینسر اسپتال لاہور کی تعمیر کے لئے عطیہ جمع کرنے کی ایک مہم کا آغاز کیا گیا جس کا نام 16 دن 16 کروڑ رکھا گیا تھا یہ نام رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ شوکت خانم اسپتال کی تعمیر مکمل کرنے کے لئے 16کروڑ روپے درکار تھے ۔ بطور صحافی اس مہم کی کوریج سے میں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا اور میرا یہ رشتہ آج تک قائم ہے۔
یہ مہم شاید اکتوبر 1994ء میں شروع کی گئی تھی اور اس مہم کے دوران اسپتال کے چیئرمین عمران خان نے چاروں صوبوں کا دورہ کیا اور پاکستانیوں سے عطیات وصول کئے۔ اس چندہ مہم کے دوران بیشتر شہروں میں ،میں بھی عمران خان کے ہمراہ تھا ۔پاکستانی عوام نے جس طرح دل کھول کر اس مہم میں حصہ لیا تھا مجھے آج بھی یاد ہے۔ مجھے شیخوپورہ کا وہ بزرگ شخص بھی یاد ہے جو ایک سائیکل پر سوار تھا اور عمران خان کے ڈبل کیبن گاڑی جس پر کھڑے ہو کر عمران خان براہ راست پاکستانی عوام سے عطیات وصول کرتے تھے اور ہم بھی اسی ڈبل کیبن پر موجود ہوتے جب ہم شیخوپورہ شہر سے باہر نکل رہے تھے تو اس بزرگ نے بلند آواز میں رکنے کا کہا ۔ میں نے عمران خان کی توجہ اس بزرگ کی طرف دلوائی جس کے بعد عمران خان نے گاڑی رکوا دی۔ وہ بزرگ شخص ہماری گاڑی کے قریب پہنچا اس کے ہاتھ میں سفید رنگ کی پوٹلی تھی اس نے وہ پوٹلی عمران خان کے ہاتھ میں تھما دی اور کہا کہ یہ میں نے حج کے لئے پیسے جمع کئے تھے یہ آپ رکھ لو میں سمجھوں گا کہ میرا حج ہو گیا۔ ایک واقعہ سیالکوٹ شہر کا ہے جس کو میں آج تک نہ بھلا پایا ۔ سیالکوٹ میں بھی ہم چندہ مہم پر تھے مجھے وہ علاقہ اور بازار تو یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ انتہائی تنگ راستہ تھا اور چھتوں پر خواتین کھڑی تھیں اور ان خواتین نے اپنے زیورات اتار کر گاڑی میں پھینکنا شروع کر دیئے اور گاڑی کے آس پاس کھڑے لوگوں نے وہ زیورات اور پیسے گاڑی میں موجود انتظامیہ کے حوالے کئے تھے ۔شوکت خانم اسپتال لاہور کی تعمیر کے لئے پاکستانی عوام کا جوش و خروش اور عمران خان سے محبت قابل دید تھی۔16 دن 16 کروڑ مہم کے واقعات تو بہت ہیں لیکن یہ دو ایسے واقعات تھے جن کے نقوش اب تک نمایاں ہیںاور جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ شوکت خانم لاہور اور پشاور غریب کینسر کے مریضوں کے لئے کسی جنت سے کم نہیں ہیں ۔ دونوں اسپتالوں سے لاکھوں کی تعداد میں کینسر کے مریض فیض یاب ہو چکے ہیں اور امید یہی ہے کہ لاہور اور پشاور کی طرح کراچی میں بنائے جانے والے کینسر اسپتال میں وہی سہولتیں عوام کو میسر ہوں گی جو ان دو اسپتالوں میں میسر ہیں۔
شوکت خانم کینسر میموریل ٹرسٹ کو مکمل سہولتوں سمیت بہترین انداز میں چلانے کا کریڈٹ میں عمران خان کے ساتھ ساتھ وہاں کی انتظامیہ کو دیتا ہوں ، خاص طور پر شوکت خانم کے سی ای او ڈاکٹر فیصل سلطان اور ان کی ٹیم انتہائی مبارکباد کے مستحق ہے جس نے پہلے دن سے شوکت خانم اسپتال میں علاج و معالجہ کے لئے معیار کو آج بھی برقرار رکھا ہے اور سب سے بڑھ کر مبارکباد کے مستحق پاکستان اور بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں جن کے عطیات کی مدد سے یہ عظیم منصوبہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ عمران خان سے اپنے اختلافات اور سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر تمام پاکستانی شوکت خانم اسپتال کراچی کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے تا کہ اس کی تکمیل کو مقررہ مدت میں یقینی بنایا جا سکے۔

.
تازہ ترین