• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سری لنکا آتے وقت میں نے پروفیسر راشدہ ماہین ملک کا سفر نامہ ’’دل والی دلی میں‘‘ ساتھ رکھ لیا تھا مگر یہاں کولمبو، گال اور اکاڈووا میں اتنی مصروفیات ہیں کہ پڑھنے کا موقع نہیں مل رہا، دوران سفر جاوید چوہدری ہنساتا رہتا ہے، ہم نے محض لطیفوں کی خاطر اپنے ساتھ آنے والی دو خواتین کو ہارون الرشید کے ساتھ دوسری گاڑی میں بٹھا دیا ہے، اب ہم یعنی جاوید چوہدری، شوکت پراچہ، انتصار سلہری اور عامر ملک خوب لطیفے سنا رہے ہیں، سری لنکا بہت سرسبز ملک ہے، اس کے ہر طرف خوبصورتی بکھری پڑی ہے۔ اس خوبصورت اور صاف ستھرے ملک کے بارے میں دو تین کالم لکھوں گا کہ یہاں کے لوگوں کو پاکستان سے بہت پیار ہے۔ سری لنکا میں پاکستان کے ہائی کمشنر جنرل سید شکیل حسین بڑے محنتی انسان ہیں، وہ ہر دم سوچتے رہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو کس طرح پاکستان کے مزید قریب کیا جاسکتا ہے، سری لنکا اور پاکستان آپس میں کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ ایک تو سری لنکا میں چین دو بند رگاہیں بنا رہا ہے۔ پاکستانیوں کے لئے بھی یہاں بہت مواقع ہیں کہ وہ اپنے تعلقات کو سمندروں کی سی گہرائی عطا کرسکتے ہیں۔ گزشتہ رات سری لنکن پارلیمنٹ کے سب سے کم عمر رکن اسمبلی ڈاکٹر کاویندا جے وردنا سے بہت سی باتیں ہوئیں۔ پاکستانی لوگ یہاں فرنیچر، گارمنٹس کے علاوہ تعمیراتی کام بھی کرسکتے ہیں، حکومتی سطح پر صحت، تعلیم اور دفاعی امور کے حوالے سے بہت کچھ ہوسکتا ہے۔
آج میں صرف سری لنکا میں دی جانے والی تعلیم کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اگرچہ سری لنکا کا لٹریسی ریٹ بہت زیادہ ہے، میٹرک پاس کو تعلیم یافتہ قرار دے کر یہاں شرح خواندگی 99 فیصد ہے مگر بدقسمتی سے سری لنکا میں اعلیٰ تعلیم بہت اعلیٰ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان سری لنکا کی مدد کرسکتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کیلئے اعلیٰ ادارے موجود ہیں، کولمبو میں عمران خان سری لنکن کرکٹرز کو ساتھ ملا کر ایک بہترین کینسر اسپتال بنا سکتے ہیں۔ کینسراسپتال کا قیام ہمارے تعلقات کو استحکام دے گا۔ خیر بات تعلیم کی ہورہی ہے۔ پاکستان میں بہت اچھے تعلیمی ادارے ہیں مگر ان کے اوپر ایک ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ہے، ہمارے دوسرے اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی بدحالی کی جانب رواں دواں ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے جاری کردہ گلوبل کمپٹیٹیونس رپورٹ 2016-17 کے مطابق پچھلے سال کی طرح اس سال بھی پاکستان جنوبی ایشیا اور مسلم ممالک میں پیچھے رہ گیا، اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تنزلی کی تمام تر ذمہ داری ایچ ای سی پر عائد ہوتی ہے۔ یوتھ کونسل آف پاکستان کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سالانہ کارکردگی پر ایک جائزہ رپورٹ جاری کی گئی ہے اس رپورٹ کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کی کارکردگی اس سال بھی مایوس کن رہی۔ اعلیٰ تعلیم کی بہتری کیلئے جاری اربوں روپے کے فنڈز میں سے 48 فیصد فنڈز خرچ نہ کئے جاسکے۔ ایچ ای سی کو مختلف منصوبوں کی مد میں 2762.30 ملین جاری کئے گئے تھے جس میں سے صرف 1437.63 ملین خرچ کئے جاسکے۔ ایچ ای سی نے سب سے زیادہ یونیورسٹیوں کے حامل صوبہ پنجاب کے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلئے کل بجٹ کا صرف 11فیصد بجٹ جاری کیا جو یونیورسٹیوں کے ترقیاتی اور ریسرچ پروگراموں کیلئے ناکافی تھا۔ صوبہ سندھ کی یونیورسٹیوں کو تو بری طرح نظر انداز کیا گیا، صوبے بھر کی یونیورسٹیوں کے لئے صرف 215 ملین جاری کئے گئے۔ ایچ ای سی کی نااہلی کے باعث پاکستان اعلیٰ تعلیم اور ٹریننگ کے سلسلے میں تمام مسلمان ملکوں سے پیچھے رہ گیا۔ دنیا بھر میں بھی پاکستان کی صورت حال کوئی تسلی بخش نہیں تھی کیونکہ مجموعی طور پر 138ملکوں میں سے ہماری پوزیشن 123ویں رہی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن بنائے لیکن بدقسمتی سے وفاقی ایچ ای سی نے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشنوں کو اختیارات ہی نہ منتقل کئے۔ وفاق کا صوبوں کو اختیارات منتقل نہ کرنا، نااہلی نہیں تو اور کیا ہے؟ ممتاز برطانوی ادارے کیو ایس اور ٹائمز ہائر ایجوکیشن نے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی جو فہرست مرتب کی ہے، دنیا کی پہلی پانچ سو بہترین یونیورسٹیوں میں سے کوئی ایک بھی پاکستانی نہیں۔ یہ رپورٹ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اعلیٰ تعلیم کی ترقی کے دعوئوں کی نفی ہے۔ حالت یہ ہے کہ کامسیٹس انسٹیٹیوٹ کے طلبہ سارا سال ڈگریوں کے اجرا کیلئے احتجاج کرتے رہے۔ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے فیصلے بھی کارگر ثابت نہ ہوسکے۔ قریباً 2700 طلبہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ایچ ای سی کی میرٹ پالیسی کو لیپ ٹاپ کی غیر منصفانہ تقسیم نے بھی مشکوک بنایا۔ اس سلسلے میں لوگوں نے عدالتوں کا بھی رخ کیا مگر وہاں پر بھی چیئرمین ایچ ای سی کی طرف سے خاطر خواہ جواب نہ دیا گیا۔
دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں پاکستان کی تو کوئی یونیورسٹی شامل نہیں البتہ چین کی 24یونیورسٹیاں شامل ہیں، انڈیا کی 7، ملائیشیا کی پانچ حتیٰ کہ سعودی عرب کی بھی تین یونیورسٹیاں شامل ہیں، میں نے جان بوجھ کر مثالوں کا انتخاب ایشیا سے کیا ورنہ امریکہ کی 48، برطانیہ کی 30،ہالینڈ کی 12، جرمنی کی گیارہ آسٹریلیا کی 9 اور جاپان کی آٹھ یونیورسٹیاں دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ دنیا کی پہلی بہترین تین یونیورسٹیاں امریکہ کےاندر ہیں۔ پاکستان کے اندر ہائر ایجوکیشن کمیشن کی یہ کارکردگی کسی طور بھی لائق تحسین نہیں ہے بلکہ یہ کارکردگی شرمناک ہے۔ ہر سال اربوں روپے خرچ کئے جانےکے باوجود یہ کارکردگی ایک اہم سوالیہ نشان ہے۔ برطانوی ادارے کیو ایس نے رینکنگ میں پاکستان کو 100 میں سے 9.2اسکور دیئے ہیں۔ ایک طرف یہ حالت ہے تو دوسری طرف اٹھارہویں ترمیم کو منظور ہوئے چھ سال ہو چکے ہیں مگر ابھی تک اعلیٰ تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل نہیں ہوسکا۔ ایچ ای سی کو اربوں کا بجٹ دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں یونیورسٹیوں کو مالی مسائل کا سامنا ہے یہاں تک کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو محض تنخواہوں کے لئے سڑکوں پر آنا پڑا۔
پاکستان میں ایچ ای سی کی جانب سےتسلیم شدہ سرکاری اداروں کی تعداد ایک سو تین ہے جبکہ 74 غیر سرکاری اعلیٰ تعلیم کیلئے ادارے ہیں۔ بڑی عجیب بات ہے کہ ملک میں غیر تسلیم شدہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد 160 سے تجاوز کر گئی ہے جو کہ ایچ ای سی کے دعوئوں کے بالکل برعکس ہے۔ روزنامہ جنگ اس زوال پذیر تعلیمی نظام پر ایک مفصل رپورٹ شائع کر چکا ہے۔ بڑھتے ہوئے کاروباری غیر تسلیم شدہ ادار وں کو نہ روک کر ایچ ای سی نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومت وقت کو سنجیدگی سے اس معاملے پر توجہ دینی چاہئے کہ پاکستان کو اعلیٰ تعلیم ہی اعلیٰ مقام دلوا سکتی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم بھی اس پر غور کرنا چاہئے کہ ہم کہاں تھے اور کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ہم دنیا کو راستہ دکھا رہے تھے، اب خود تاریک راہوں میں پہنچ گئے ہیں۔ تنزلی کایہ سفر نااہلی کے بغیر نہیں ہوا۔ پاکستان کی معروف شاعرہ رخشندہ نوید نے شاید انہی لمحوں کیلئے کہا تھا کہ؎
روبرو اک اونچا در تھا، تجھ کو کیا تھا
مجھ کو رسوائی کا ڈر تھا، تجھ کو کیا تھا

.
تازہ ترین