• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رستم، سہراب، سیمسن، ہرکولیس وغیرہ جیسے نام سن یا پڑھ کر اچھا خاصا آدمی اک خاص قسم کے ’’احساس کمتری‘‘ کا شکار ہوجاتا ہے کہ’’مرد‘‘ تو دراصل یہ دیومالائی مردان آہن تھے ورنہ ہم جیسے تو فقط خانہ پری کے کھاتے میں آتے ہیں جو چھوٹی موٹی تکلیف پر بلبلا اٹھتے ہیں لیکن کبھی کبھی خیال گزرتا ہے کہ آدمی بڑے سے بڑا زخم، گہری سے گہری چوٹ تو برداشت کرلیتا ہے لیکن بظاہر معمولی اور چھوٹے موٹے کمی کمین اور گھٹیا قسم کے عوارض عذاب جان بن جاتے ہیں، مثلاً حجاج بن یوسف کی معمولی سے مرض نے چیخیں نکلوادیں۔ اسی طرح مہابلی ظل سبحانی جلال الدین اکبر فضول سے مرض کے سامنے ہار گیا تھا، شاہجہاں کا مرض بھی خاصا مضحکہ خیز تھا جس کے لاعلاج ہونے کی افواہ نے شہزادےمروادئیے، بادشاہ کو بیٹے کا قیدی بنوا کر مغلیہ سلطنت کی بربادی کا بنیادی پتھر رکھ دیا۔ وہ سنبھل بھی گیا لیکن معاملات ہاتھ سے نکل چکے تھے۔اسی طرح خلافت عثمانیہ کے عظیم الشان سلاطین میں سے بہت سے ایسے امراض کے ہاتھوں مارے گئے جو آج نزلہ زکام جتنی اہمیت کے حامل بھی نہیں۔ لمبی کہانی ہے کہ کیسے کیسے فاتحین اور شہ زور کیسی کیسی معمولی اور تھرڈ کلاس بیماریوں کے ہاتھوں’’ہینڈز اپ‘‘ پر مجبور ہوگئے۔گزشتہ چند سالوں میں خود میرے چند قریبی دوست موذی ترین مرض کینسر کا جی داری سے مقابلہ کرتے کرتے رفتگاں ہوگئے۔ پولیس سروس میں جاوید نور جیسے افسر خال خال ہی گزرے۔ وہ اندر باہر سے خوبصورتی ،پاکیزگی کی مثال تھااور دلیر اتنا کہ کینسر کی زد میں آنے کے بعد کینسر کی روداد، آپ بیتی لکھتا رہا کہ اس کا یہ’’بھیانک تجربہ‘‘ ریکارڈ پر آجائے اور کینسر کے دیگر مریض استفادہ کرسکیں۔ اسی طرحPTIکا دراز قد، ہینڈسم سابق صدر پنجاب احسن رشید جس نے پوری سج دھج سے کینسر کا مقابلہ کیا، زندگی ہار گیا، ہتھیار نہیں ڈالے ۔ تیسرا تازہ شکار میرا بچپن کا یار ہاکی کا سابق اولمپئین ارشد چودھری تھا جس نے پہلے سب سے چھپایا کہ اہل خانہ کو دکھ نہ ہو، پھر معاملہ حد سے گزر گیا تو اہل خانہ کو اعتماد میں لینا پڑا لیکن ساتھ یہ شرط عائد کردی کہ کوئی میرے دوستوں کو نہیں بتائے گا۔ شیروں جیسا ارشد ڈیفنس کے اک ہسپتال میں موت سے نبرد آزما تھا جب میری بھتیجی، میری بیٹی نے فون پر بتایا، ’’ابو کی حالت ٹھیک نہیں، آپ کی موجودگی میں انہیں مزید تقویت ملے گی لیکن انکل پلیز! یہ نہ بتانا کہ ہم نے آپ کو بتایا ہے‘‘۔اگلے روز ہی میں ارشد کے سرہانے بیٹھا جھوٹ بول رہا تھا کہ یاد نہیں کس نے تمہاری بیماری کا بتایا تو ارشد نے کہا’’یہ تو دو تین سال سے چل رہا ہے۔ میں نے تو بچوں سے بھی چھپایا ہوا تھا‘‘۔ میں نے کہا’’بچوں سے چھپایا لیکن مجھے کیوں نہیں بتایا خبیثا؟‘‘ تو قہقہہ مار کے بولا’’جگر! تجھے کیسے بتاتا کہ کیموتھراپی اندر کیسی دھمال ڈالتی ہے‘‘ میرے آنسو ابل پڑے تو ہاتھوں سے پونچھتے ہوئے بولا،’’ ابھی نہیں کچھ دن بعد رونا کیونکہ"The end"لگنے والا ہے‘‘ ارشد چودھری میرے گھر میں داخل ہوتا تو روشنی اور خوشبو کے ریلے کی طرح۔ وہ ہمیشہ مجھے میرے نک نیم سے بلاتا جو میری بیوی سے لے کر بچوں تک کے لئے ہر بار یادگار ہوتا۔ وہ سابق ڈپٹی میئر، لائل پور صدیق سالار مرحوم کا بیٹا، سابق پرنسپل ایچی سن کالج چودھری غلام رسول مرحوم کا بھتیجا اور داماد، سابق آئی جی پنجاب چاچا امین مرحوم کا چہیتا بھتیجا اور اختر رسول کا کزن تھا جس نے پوری زندگی اپنوں کیا، غیروں کے لئے بھی وقف کئے رکھی۔ وہ لندن میں بھی پی آئی اے کا سٹیشن منیجر رہا۔ میں وہاں ہوتا تو حالت یہ ہوتیہم تم ہوں گے ساون ہوگارقص میں سارا جنگل ہوگاچند ہفتے پہلے کہیں پڑھا کہ آئندہ پچیس، تیس سال میں کوئی مرض لاعلاج نہیں رہے گا تو میں کیا کروں؟ موت کو بھی موت آجائے تو میں کیاکروں کہ میں تو جانے کتنی بار مرچکا لیکن اذیت کو کون مارے گا؟ موت مر بھی گی تو اذیت کو کون مارے گا؟ اپنوں کے بغیر کون جینا چاہے گا اور پھر وہی اذیت۔یہ جو رستم ، سہراب، سیمسن اور ہرکولیس ٹائپ متھس ہیں تو داڑھ میں درد پر کیا کرتے ہوں گے؟ معمولی سی پیچش پر ان کا ردعمل کیسا ہوتا ہوگا؟ کینسر ، ایڈز کو چھوڑیں انہیں خارش کتنا تنگ کرتی ہوگی؟ دو ٹکے کا فلو کیسے ان کی مت ماردیتا ہوگا؟ آنکھ میں بال پڑنے پر رستم کی رستمی، سہراب کی سہرابی، سیمسن کی سیمسنی اور ہرکولیس کی ہرکولیسی کیا بیچتی ہوگی، بے خوابی کا سامنا کیسے کرتے ہوںگے، یہ دیومالائی کردار لیکن ساری دیومالا تو انسانی تصور کا ادھار ہیں۔یہ سارا کالم معرض وجود میں اس لئے آیا کہ میں گزشتہ چند روز سے انتہائی گھٹیا قسم کے’’فلو‘‘ میں گرفتار ہوں اور سیانے فلو کے بارے یہ کہہ گئے ہیں کہ یہ اک ایسی لعنت ہے کہ علاج کرنے پر ہفتہ بھر میں جان چھوڑ دیتی ہے اور علاج نہ کرانے کی صورت میں سات دن کے بعد درست ہوجاتی ہے لیکن میرے کیس میں دونوں فارغ۔ نہ ہفتہ کام آیا نہ سات دن۔ اتنی بیزاری کہ بیان سے باہر۔ کوئی کتنا بھی سخت جان کیوں نہ ہو، کتنی ہی قوت برداشت سے مالا مال ہو، قدرت کا معمولی سا جھٹکا بھی مت مارنے کے لئے بہت کافی ہوتا ہے کہ یہی کل کائنات ہے اور انسان کی اصل اوقات بھی۔

.
تازہ ترین