• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلمانوں سے ایک بات کہنے کو جی چاہتا ہے۔ آپ بلاشبہ محراب حرم میں پہروں دوگانہ پڑھیں لیکن کبھی کبھی باہر کی دنیا کے معاملات پر غور بھی کر لیا کریں۔ ذرا سوچئے، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اپنے ملک میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانے کی بات کی تھی تو ہم سمجھے تھے کہ مذاق کر رہا ہے مگر اس نے تو جو کہا تھا، وہ کر دکھایا۔ پہلے اسرائیلیو ں کو کھلی چھوٹ دی کہ گھیر لو فلسطینیوں کی زمینوں کو، اس کے بعد اعلان کیا کہ امریکہ میں سات ملکوں کے مسلمانوں کا داخلہ بند۔ اس اعلان پر جو قوم ششدر رہ گئی اور سر پکڑ کر بیٹھ گئی وہ خود امریکی قوم تھی۔ وہی امریکی خواتین جو نئے صدر کے حلف اٹھاتے ہی لاکھوں کی تعداد میں نئے صدر کے خلاف نعرے لگاتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئی تھیں، جن کا نعرہ تھا کہ معاشرے میں خواتین کو ان کا جائز مقام دیا جائے، وہی خواتین اور اسی ملک کے مرد، جو مسلمان نہ تھے اور زیادہ جوشیلے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کا مطالبہ کیا تھا؟ یہ کہ تمہیں مسلمانوں پر پابندی لگانے کا کوئی حق نہیں۔ امریکی آئین ا ور ملک کا قانون اور سب سے بڑھ کر کسی مہذب سرزمین کا رویہ یوں کسی پر قدغن لگانے کی اجازت نہیں دیتا۔ سارا ملک ایک دوسرے کا ہمنوا ہو گیا۔ زندگی کہ ہر شعبے کے افراد، خصوصاً قانون اور آئین کے ماہرین نے اعلان کردیا کہ وہ اس غیر انسانی ممانعت کے خلاف جنگ کریں گے۔
مسلمانوں کے حق میں یہ صدا صرف امریکہ میں نہیں، سارے ہی مغربی اور غیر اسلامی ملکوں میں بلند ہوئی، ان ملکوں میں بھی جہاں ابھی حال ہی میں نام نہاد مسلمانوں نے بے قصور اور بے گناہ بچوں، عورتوں اور مردوں کو بے دریغ قتل کیا تھا۔ ابھی تو ان کی سڑکوں پر بہنے والا خون خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ مسلمانوں کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے اٹھ کھڑ ے ہوئے۔ یہ لوگ دنیا کے حالات پر خوب خوب نگاہ رکھتے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ جن سرزمینوں میں جا کر تم نے خون کی ہولی شروع کی ہے وہاں کے بے بس اور مجبور کنبے یورپ نہ آئیں تو کہاں جائیں۔ لوگ ہاتھوں میں تختیاں اٹھائے چلے جا رہے ہیں جن پر لکھا ہے کہ ہم پناہ گزینوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ کینیڈا نے اعلان کیا کہ پناہ کے متلاشی ان کے ہاں چلے آئیں۔ ایک بہت بڑی چائے اور کافی کی شاپ نے، جس کی شاخیں ساری دنیا میں کھلی ہوئی ہیں، اعلان کیا ہے کہ وہ ہزاروں تارکین وطن کو ملازمت دے گی۔
امریکہ کے ایک تازہ واقعہ سے تو یقین ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کا سر گھوم گیا ہے۔ ملک کے ایک ہوائی اڈے پر حکام نے پانچ سال کی ایک مسلم بچی کو حراست میں لے لیا اور کئی گھنٹے اسے کہیں بند رکھا۔ اس پر باہر موجود عوام نے اپنے غیظ و غضب کا مظاہرہ کیا۔ آخر بچی کو رہائی ملی اور باہر موجود مجمع نے جشن اور فتح کے نعرے لگائے۔ اسی طرح ایک ہوائی اڈے پر ایک تنہا مسلمان خاتون کو حراست میں لے لیا گیا۔ باہر عوام کو علم ہوا تو جب تک خاتون اندر بند رہیں باہر سے ان کے لئے گرم کافی اور کیک بھجواتے رہے۔ سب سے زیادہ دل پر اثر کرنے والا واقعہ لندن کی سڑکوں پر دیکھنے میں آیا۔ یہاں ہزاروں افراد ڈونلڈ ٹرمپ کے برطانیہ کے سرکاری دورے پر آنے کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ بند ہے تو ہمارے ہاں بھی امریکی صدر کو داخل ہونے کا حق نہیں۔ بہت بڑا مظاہرہ تھا اور وزیراعظم کے گھر کے چاروں طرف سڑکیں احتجاج کرنے والوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا۔ مجمع میں شامل مسلمانوں نے اپنی صفیں درست کیں اور نماز کی نیت باندھ لی۔ سینکڑوں مسیحی باشندوں نے ان کے گرد حفاظتی حصار باندھ لیا اور جب تک نماز مکمل نہیں ہو گئی، لوگ ان کی حفاظت کرتے رہے۔ سوچتا ہو ں کہ کیا اس واقعہ پر ان بے حس اور بے عقل افراد کی گردنیں جھکی ہوں گی جنہوں نے لاہور کے ایک میلے میں مسیحیوں کا خون بہایا، جنہوں نے ایک مسیحی بستی کو پھونک ڈالا اور لوگوں کو زندہ جلایا اور جو عبادت گزاروں کے مجمع سے بھرے چرچ کو دھماکے سے اڑا کر چلتے بنے۔ سر جھکانا اور نادم ہونا تو دور کی بات ہے، کیا کسی نے کچھ سوچا ہوگا، کچھ غور کیا ہوگا، کیا ان کے وجود میں کہیں کوئی پھانس چبھی ہوگی اور کیا اس شے میں جسے ضمیر کہتے ہیں، کسی نے کو ئی چٹکی لی ہو گی۔ میرے ان سوالوں کا کہیں سے جو جواب آرہا ہے، میں اسے دہرانے سے صاف انکار کرتا ہوں۔ غیب سے خیال میں آنے والے مضامیں کو ایسی فضا میں بہتر ہے ان گنے چنے افراد پر چھوڑ دیا جائے جو سوچنے کے قائل اورفکر کرنے کے عادی ہیں۔ وہ کم ہیں مگر غنیمت ہے کہ ہیں۔
امریکہ نے مسلم اکثریت کے سات ملکوں کے باشندوں کا داخلہ بند کیا ہے۔ ان میں عراق، شام، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ جاکر جن ملکوں کے باشندوں نے دہشت گردی کی کارروائیاں کیں، ان میں یہ ملک شامل نہیں۔ ایران نے سب سے پہلے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم بھی اپنے ملک میں امریکیوں کا داخلہ بند کردیں گے۔
برطانیہ کے اٹھارہ لاکھ افراد نے ایک عرضداشت پر دستخط کئے ہیں جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر کو دیا جانے والا دعوت نامہ منسوخ کیا جائے۔ اس کے خلاف بھی ایک عرضداشت پیش کی گئی جس پر ڈیڑھ لاکھ افراد نے دستخط کئے ہیں۔ پارلیمان ان دونوں پر بحث اور غور کرنے کی پابند ہے۔ ماضی میں کسی امریکی صدر کو اس کے چناؤ کے پہلے سال کے دوران شاہی دعوت نامہ نہیں دیا گیا۔ ایسی دعوت میں مہمان کی شاندار آؤ بھگت ہوتی ہے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ ادھر کوئی صدر منتخب ہوا اور خاتون وزیراعظم تھریسا مے نے جھٹ اسے دعوت دے دی۔ نہ ہوئیں مارگریٹ تھیچر۔



.
تازہ ترین