• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کولمبو سے باہر کی داستان بعد میں پہلے تھوڑا سا ذکر اس شہر کا جسے سری لنکا کا دارالحکومت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ کولمبو شہر سے ایئرپورٹ قریباً 30کلومیٹر دور ہے مگر یہ 30کلومیٹر سڑک موٹروے کی طرز پر بنائی گئی ہے۔ چائے جیسی ٹرین بھی اسی سڑک کے نیچے سے گزر جاتی ہے۔ یہاں آنکھوں کے سامنے یا سبزہ ہوتا ہے یا سمندر کا پانی۔ کولمبو میں اگرچہ چرچ اور مندر بھی ہیں مگر یہاں بدھ مت کے عبادت خانے زیادہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہیں۔ کولمبو میں اذان لائوڈ اسپیکر پر ہوتی ہے۔ کولمبو شہر کے وسط سے آنے والی اللہ اکبر کی صدائیں دلوں کو مسحور کرتی ہیں۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ سری لنکا میں اسلام عرب تاجروں کے طفیل پہنچا تھا۔ ان تاجروں کی اولاد آج بھی سری لنکا میں ہے۔ سری لنکن مسلمان امیرترین ہیں۔ سری لنکا کی تجارت میں مسلمانوں کا بہت دخل ہے۔ اس ملک کی اقتصادیات میں مسلمان کس قدر اہم ہیں کہ جی ڈی پی کا 35 فیصد وہ ہیں۔ کولمبو کا اہم ترین تجارتی مرکز ’’پیٹھا بازار‘‘ ہے اس بازار میں 90فیصد سے زائد دکانوں کے مالک مسلمان ہیں۔ کولمبو میں سڑکوں پر تجاوزات نظر نہیں آتیں ۔یہاں کے فٹ پاتھ صاف ستھرے ہیں۔ ان پرلوگوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ کولمبو کے گرائونڈ ہر وقت بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں عورتیں، مردوں کے شانہ بشانہ قومی ترقی میں شامل ہیں۔کولمبو رات کو کافی پرسکون ہو جاتا ہے مگر پھر بھی یہاں راتوں کو کچھ مشرقی موسیقی اور چند مغربی موسیقی کے سنٹر کھلے رہتے ہیں، جہاں پرفارمنس بھی ہوتی ہے۔
ایک دن ہم صبح سویرے گال کی طرف روانہ ہوئے۔ ہمارادوپہر کا کھانا اِکاڈووا میں تھا۔ ایک بیچ کے پاس ایک شاندار ریسٹورنٹ میں لنچ کا بندوبست تھا۔ سامنے سمندر اپنی لہریں بلند کر رہا تھا۔ اِکاڈووا میں بہت سے گورے گوریاں پانی سے کھیل رہے تھے۔ اِکاڈووا سے گال کی طرف جاتے ہوئے سڑک کنارے ناریل بیچنے والے تھے۔یہاں ہم نے ’’ناریل کنگ‘‘ پیا۔ گال جاتےوقت سمندر بھی ساتھ چلتاہے۔ گال میں بھی لوگ سمندر کنارے پانیوں سے دل بہلارہے تھے۔ گال میوزیم جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ جہاں لنکا کی پوری تاریخ بول رہی تھی۔ گال میں کرکٹ کامعروف اسٹیڈیم ہے۔ یہاں میں سبزے کا ذکر ضرور کروں گا کہ کولمبو سے گال تک ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے۔ کہیں ناریل کےدرخت، کہیں ربڑ کے باغات تو کہیں چائےکے پودے۔ اصل میں تو یہ علاقہ چائے کانہیں۔ کینڈی میں بھی نور ایلیا مقابلے کی چائے کہاں؟سری لنکا کے وسطی علاقے نورایلیا میں صرف چائے کے باغات ہیں۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے مگر یہاں برف باری نہیں ہوتی بلکہ سری لنکن توبرف باری دیکھنے کو ترستے ہیں۔
چین پاکستان میں گوادر پورٹ بنا رہا ہے جبکہ سری لنکا میں چین دو بندرگاہیں بنا رہا ہے۔ ایک تو کولمبو میں اور دوسری بندرگاہ کا نام ہے ہمبن طوطا۔ چین سمندری راستوں پر اپنے پر پھیلا رہا ہے۔ یہ ایک طرح سے سی کوریڈور بن رہا ہے۔ اس سے یقیناً خطے میں خوش حالی آئے گی۔ پاکستانی بزنس کمیونٹی کو بھی سری لنکا کی طرف توجہ دینی چاہئے، وہاں بزنس کے بہت سے مواقع ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں ایک مثالی صنعتی نمائش کا تذکرہ بڑا ضروری ہے۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں پاکستان کی جانب سے کولمبو میں ایک صنعتی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ اس نمائش کے انعقاد میں پاکستانی کمرشل اتاشی عدنان صاحب نے بڑا کردار ادا کیا۔ عدنان میرے ایک کلاس فیلو کیپٹن (ر) آصف بھٹی کے بیج میٹ ہیں۔ سری لنکا میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن سرفراز سپرا ہمارے ایک اور کلاس میٹ راجہ عظیم کے بیج میٹ ہیں۔ اس نمائش کے پورے کولمبو میں چرچے تھے۔ سری لنکن لوگوں نے پاکستانی اشیا کوبہت پسند کیا اور ان میں دلچسپی لی۔ پاکستانی بزنس کمیونٹی کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
سری لنکامیں سب سے اہم بریفنگ کے ڈی یو یعنی جنرل سر جوہن کوٹے والا ڈیفنس یونیورسٹی میں ہوئی۔ جہاں سری لنکا کے اعلیٰ فوجی حکام کے علاوہ چوٹی کے تعلیم یافتہ لوگ موجود تھے۔ گویا یہ ایک خوبصورت مجلس تھی۔ کے ڈی یو کولمبو کے پاس راتھمالانا میں کندا والا روڈ پر واقع ہے۔ یونیورسٹی کے ڈپٹی وی سی بریگیڈیئر اندونیل راناسنگھے نے ہمارا استقبال کیا۔ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ریسرچ پروفیسر روشن پریرا بھی پیش پیش تھے۔ یونیورسٹی میں شاندار بریفنگ کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس میں کھل کر پاک سری لنکا تعلقات کے حوالے سے مختلف تجاویز بھی سامنے آئیں۔ چائے کی میز پر بھی کچھ معاملات زیربحث آئے۔ اس کے بعد یونیورسٹی میوزیم جانا ہوا۔ یونیورسٹی کے اس پورے دورےمیں دفاعی اتاشی کرنل راجل ارشاد خان خاصے متحرک رہے۔
کرنل راجل ارشاد خان، اپنے کرنل سعید جنجوعہ کے بیج میٹ ہیں۔ خیر سری لنکا کا ہمارا دورہ انتہائی مفیداور کامیاب رہا۔
پچھلے کالم میں نادرا کی کچھ کارستانیا ں بیان کی گئی تھیں جسے ملک بھر کے بہت سے لوگوں نے سراہا ہے۔ بلوچستان سے دانشور، صحافی اور کئی کتابوں کی مصنفہ محترمہ نرگس بلوچ نے میری توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے کہ مکران خاص طور پر گوادر میں غریب ماہی گیروں کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کہ نادرا کے سامنے وہ سب بے بس ہو چکے ہیں۔ چوہدری نثارعلی خان کو اس سلسلے میں توجہ کی ضرورت ہے ورنہ یہ معاملہ مزید خراب ہو جائے گا۔
اگلا کالم پھر سے سیاست پر لکھوں گا۔ ابھی تک تو جو کچھ ٹی وی چینلز پر دکھایا جارہا ہے یا جو خوبصورت کلپس سوشل میڈیا کی نذر ہو رہے ہیں انہیں دیکھ کر تو اندازہ ہو رہا ہے کہ سیاست میں شدید گرمی ہے۔ کہیں نہ کہیں کسی کام کی تیاری ہو رہی ہے۔ جو بیانات میں تضاد ہے اسے دیکھ کر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ بھید کھلنے پر کچھ لوگ بیرون ملک جاچکے ہیں، کچھ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
فرحت زاہد کی ایک نظم کا نصف پیش خدمت ہے؎
ہوائوں میں یہ کیسی بے یقینی ہے
ہمارے صحنِ گلشن میں
کسی آسیب کا سایہ لرزتا ہے
میرا دل ڈر رہا ہے
کہ میرے لعل اپنی ہی زمیں پر
بے زمیں ہونے لگے ہیں
میرے پھولوں کی قیمت لگ رہی ہے
میری خوشبو کو بیچا جارہا ہے


.
تازہ ترین