• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی پنجاب پولیس کی قید سے پاکستان کا ’’جاسوس‘‘ کبوتر اُڑکر سرحد پار کرگیا۔بھارتی ایجنسیوں کا شک ہے کہ وہ جیمز بانڈ زیروزیرو سیون کبوتر واپس پاکستان پہنچ گیاہے اور سیدھا وہیں پہنچا ہوگا جہاں سے اسے کوئی خفیہ مشن سونپا گیاتھا۔ایساپہلی بار ہوا ہے کہ مبینہ جاسوسی کے الزام میں بھارت کی قید میں کوئی پاکستانی قیدی اس طرح خیروعافیت سے وطن واپس لوٹاہو۔وگرنہ قیدیوں کی رہائی کے لئے انصار برنی کو بڑی تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔محترم انصار برنی ایک عرصہ سے پاکستان اوربھارت کی جیلوں سے قیدیوں کی رہائی کے لئے کام کرتے آرہے ہیں۔قیدیوں کا تبادلہ دوطرفہ ہوتاہے یعنی اگر پاکستان کسی بھارتی قیدی کو رہائی دیتا ہے تو بھارت کی جیل سے بھی کسی پاکستانی قیدی کی رہائی ممکن بنائی جاتی ہے ۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ قیدیوں کے دوطرفہ تبادلے کے بغیر ہی پاکستانی کبوتر بھارتی حراست سے آزادی پاگیا۔ کبوتر کی رہائی کی ذمہ داری اگر انصار برنی کے سپرد ہوتی تو آج پاکستانی حکام کوبھی کوئی ہندوستانی ’’کاں ‘‘کواآزادکرنا پڑتا۔ممکن ہے پاکستانی کبوتر کی رہائی کیلئے ہمیں کوئی بھارتی ’’را طوطا‘‘ بھی رہا کرنا پڑتالیکن کبوتر نے ایسا کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔کبوتر اور طوطے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں نجم سیٹھی کی چڑیا بھی مشہور ہے جو انہیں ’’آپس کی بات‘‘ کے لئے اندر کی خبریں فراہم کرتی ہے ۔چڑیا جب اندر کی خبرکے ساتھ ساتھ پچھلے اندر کی خبر لاتی ہے تو کوئی ’’خبررساں ‘‘ پرندہ لگتی ہے ۔
گزشتہ دنوں جب مذکورہ کبوتر کو حراست میں لیاگیاتو بھارتی میڈیا نے الزام لگایا تھاکہ یہ کبوتر پاکستانی جاسوس ہے ۔اپنے اس الزام کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے وقوعہ یہ بنایاگیاکہ کبوتر کے ساتھ ایک خفیہ پیغام پکڑا گیاہے جو پاکستان کی قومی زبان اُردو میں لکھا گیاہے اور اس کیساتھ ایک ٹیلی فون نمبر بھی ہاتھ لگا ہے ۔شکر ہے بات یہیں تک رہی وگرنہ یہ بھی الزام بھی لگایاجاسکتاتھاکہ کبوترکی’ ’غٹر غوں غٹرغوں‘ ‘ کا انداز خالصتاََ پنڈی وال جیسا ہے ۔ یہ الزام بھی لگایاجاسکتا تھاکہ کبوتر شیخ رشید کی لال حویلی کے گردونواح میں واقع کسی چھجے سے اُڑ کر بھارت جاسوسی کرنے پہنچا تھا۔ کبوتر بازی کے شوقین بتاتے ہیںکہ کبوتروں کی کئی ایک مشہور اقسام ہیں جو مختلف صلاحیتیوں سے مالامال ہوتے ہیں ۔ کبوتر دور دراز مقام سے اپنے ٹھکانے پر واپس لوٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،یہ پیچیدہ حرکات وسکنات اورترتیب کو ذہن نشین کرسکتے ہیں،انکی حسِ سماعت بہت تیز ہوتی ہے،5000ہزار سال قبل یونانیوں نے ان سے پیغام رسانی کا کام لینا شروع کیا۔دنیا کے مختلف ممالک جن میں فرانس ،سویڈن اور چین سمیت دوسری افواج شامل ہیں کبوتروں سے مختلف نوعیت کے کام لیتی ہیں۔ ہمارے ہاں پائے جانے والے پرندوں میں تلور برادر ممالک کے شہزادوں میں بڑا مقبول ہے۔ سفارتی تعلقات کی مضبوطی میں تلور کا کردار ویسا ہی ہے جیسا زندہ دلا ن اپنے شہر لاہور کے لئے کہاکرتے ہیں کہ’’لہور لہور اے ‘‘ یعنی لاہور لاہور ہے ۔ اسی طرح اب کہاجاسکتا ہے کہ’’ تلور تلور اے ‘‘۔ تلور سے مجھے سائبریا سے آنے والا ایک پرندہ یاد آگیا ۔جس کے لئے کہاجاتاہے کہ سائبریا سے آتے ہوئے یہ راستے میں آذربائیجان رکتا ہے۔جہاں یہ زعفران کے پھول نگلتاہے ۔شائقین بیان کرتے ہیںکہ پرندہ ہذا کے زعفران کی خوشبو سے لبریز گوشت کے فوائد اور افادیت کا تلور سے کوئی مقابلہ نہیں مگر ’’کمپنی کی مشہوری ‘‘ کچھ اس طرح سے ہوگئی ہے کہ تلورکی ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے ۔میرے دوست سلیم البیلانے پیشکش کی ہے کہ اگر میں اسے تلور کا گوشت مہیاکردوں تو وہ مجھے تلور کریلے ،بھنڈی تلوراور تلور کچنار سمیت دیگر ڈشزپیش کرسکتا ہے۔قدیم یونانیوں نے کبوتر سے پیغام رسانی کے اہم کام کا آغاز کیا تھا۔ عاشقوں اور معشوقوں کی کہانیوں میں بھی کبوترکو مرکزیت حاصل رہی۔ منور سلطانہ نے پری چہرہ صبیحہ خانم کے لئے یہ گیت گایا تھا
واسطہ ای رب دا توں جانویں وے کبوترا
چٹھی میرے ڈھول نوں پوچا نویں وے کبوترا
(ارے کبوترتجھے رب کا واسطہ یہ چھٹی میرے محبوب کو ضرور پہنچا دینا)بھارتی اداکار سلمان خان کی فلم ’’میں نے پیار کیا‘‘ کے لئے یہ گیت اداکارہ بھاگیہ شری پر پکچرائز ہوا تھا
کبوتر جا، جا، جا کبوتر جا، جا، جا
پہلے پیار کی پہلی چھٹی ساجن کو دے آ
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے لائسنس رکھنے والے پاکستانی چینلز کو بھارتی فلمیں دکھانے کی اجازت دے دی ہے۔یہ فیصلہ عاصمہ جہانگیر کی رٹ پٹیشن پرہوا ہے ۔عاصمہ جہانگیر ایک دبنگ خاتون ہیں اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار ہمیشہ برملاکردیتی ہیں۔ان کی کوششوںسے بھارتی فلموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت مل گئی ہے اب انہیں چاہئے کہ پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمائش اور ٹی وی چینلز کی نشریات سے پابندی اٹھانے کیلئے بھی کوئی قانونی سبیل کریں۔ میں درجنوں مرتبہ بھارت گیاہوں مجھے وہاں کہیں بھی پاکستانی ٹی وی چینل کی نشریات دکھائی نہیں دیں۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستانی فلمیں بھارتیوں کے جمالیاتی معیار پر پورا نہ اترتی ہوں مگر پاکستانی ٹی وی ڈرامے کی تعریف تو بالی وڈ کنگ اورہمارے لاہوری بزرگ آنجہانی یش چوپڑہ بھی کیاکرتے تھے۔ ہندوانتہا پسندوں نے پاکستانی فنکاروں پر بالی وڈ کے دروازے بھی بند کررکھے ہیں انہیں بھی اب رضاکارانہ طور پر کھلنا چاہئے۔ میرے دوست گلوکار رفاقت علی خاںسے سوال کیاگیاکہ وہ بالی وڈ کیوں نہیں جارہے ؟رفاقت نے دووجوہات بیان کیں ۔پہلی وجہ اجمل قصاب اور دوسری راحت فتح علی خاں۔یہ ایک طرح سے راحت کے اسٹارڈم کو ٹریبوٹ تھاجس کا گیت شامل کئے بغیر بالی وڈ کی فلم کی پروڈکشن کاسٹ بڑی نہیں ہوپاتی۔
سیاسی کہانیوں میں بھی چٹھیوں اور خطوط کی شہرت رہی ہے ۔ان دنوں قطری شہزادے کے خطوط کا تذکرہ عمران خان اور بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن مسلسل کررہے ہیں۔ کبوتروں کا ذکرچھڑاتو چھٹیوں اور خطوط کا تذکرہ بھی آگیا ۔آج کے کالم میں بس اتنا ہی کبوتر کو بھارتی قید سے رہائی مل گئی اور گلوبٹ اپنے جرم کی سزا کاٹ کرآزاد ہوگیا۔
اس موقع پر گلوبٹ کا وہ انٹرویو یاد آگیاجس میں اینکرپرسن نے اسے کہاتھاکہ ’’تم نے ہاتھ میں ڈنڈا اٹھاکر دہشت گردی کا مظاہرہ کیا ہے‘‘۔ گلوبٹ کا تاریخی جملہ ملاحظہ ہو’’ڈنڈا تو مہاتماگاندھی کے ہاتھ میں بھی ہوتاتھا تو کیاوہ بھی دہشت گرد تھے ‘‘۔ جہاں گلوبٹ کو اپنے آپ میں مہاتما گاندھی دکھائی دے اس سیاسی نظام کو کیانام دیا جاسکتاہے ؟

.
تازہ ترین