• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ صاحب بہت غصے میں نظر آرہے تھے بلکہ غصے سے کانپ رہے تھے اور جذبات سے مغلوب ہوکر کہہ رہے تھے ڈرگ ایکٹ کے ترمیمی قانون سے پنجاب حکومت ہمارے بچوں کو دہشتگرد بنانا چاہتی ہے ، کیونکہ ڈرگ ایکٹ ایک ایسا قانون ہے جس سے ہمارے کاروبار تباہ ہوجائیںگے ہم اور ہمارے بچے بھوک اور افلاس سے مجبور ہوکر دہشتگرد بن جائیںگے اور اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی، ایک اور صاحب کہہ رہے تھے کہ ہم نے مسلم لیگ(ن) کو اس لئے ووٹ نہیں دیئے تھے کہ وہ حکومت میںآکر ہمیں ہی روند ڈالیں اور جمہوریت ایک بہترین طرز حکومت ہے اس لئے ہم سب جمہوریت جمہوریت کی مالا جپتے رہے ہیں بلکہ جمہوریت کے حق میں گھنٹوں دلائل دیتے اور دینے کیلئے تیار ہوتے ہیں اور اگر کوئی ہماری جمہوریت کی کسی خامی کی نشاندہی کرے تو فوراً اسے کسی دوسری طاقت کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور جناب اس جمہوریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کبھی ڈاکٹرز شاہراہیں بند کردیتے ہیں اور اپنے مطالبات کے حق میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ خوب نعرے بازی کرتے ہیں اور بے چارے غریب اور نادار مریضوں کو تڑپتا چھوڑ دیتے ہیں لیکن اب ادویات بیچنے والے کیمسٹ حضرات نے بھی اپنے کاروبار بند کرکے بیچارے ان لوگوں کو تڑپتا چھوڑ دیا ہے جو ایک ٹیبلٹ ایک انجکشن اور کسی ایک سیرپ کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیںاور کیمسٹ کے کا رو با ر سے تعلق رکھنے وا لا کو ئی ایک بھی یہ نہیں کہہ رہا کہ اس قا نو ن سا زی سے ہم میں مو جو د ان کا لی بھیڑوں کی سرکوبی ہو گی جو زند گی کے نا م پر مو ت بانٹ رہے ہیں۔
ویسے تو یہ ضروری نہیں لیکن ہمارے ملک کی روایات کے مطابق اگر ہم ادویات کے حوالے سے نئے قانون کے مسودے کو تشکیل دینے سے پہلے پاکستان کیمسٹ اینڈ ریٹیلرز ایسوسی ایشن سے ایک ٹیبل پر بیٹھ کر سیر حاصل گفتگو کرلیتے تو شاید آج کیمسٹ حضرات یوں ہڑتال کرکے بے چارے مریضوں کو تڑپتا نہ چھوڑتے اور شاید وہ حادثہ جو دہشتگردی کی صورت میں پیش آیا وہ رونما نہ ہوتا اور یوں قیمتی جانیں ضائع نہ ہوتیں ۔جعلی ادویات اور عطائی ڈاکٹروں کے حوالے سے پورے ملک میں یکساں قوانین ہونے چاہیں اور عوام کو نہ صرف جعلی ادویات سے بچانا چاہیے بلکہ عطائی ڈاکٹروں کی سرکوبی بھی کرنی چاہیے ان لیبارٹریوں کے خلاف بھی کارروائی ہوناچاہیے جو غیر معیاری ہیں اور درست تشخیص کی بجائے وہ مزید بیماریوں کا باعث بن رہی ہیںلیکن دوسری طرف ہمیں دور دراز رہنے والے ان غریب لوگوں کیلئے بھی صحت کی سہولیات بہم پہنچانی چاہیں جہاں ڈسپنسری یا ڈاکٹر نام کی کوئی چیز نہیں اور یہ چھوٹے چھٹوٹے کیمسٹ اسٹورز اور ان پر کام کرنے والے کیمسٹ حضرات کی بڑے مسیحا سے کم کا درجہ نہیں رکھتے ، یہی عطائی ان لوگوں کیلئے لیڈی ڈاکٹر ،ا سپیشلسٹ اور سرجن کی حیثیت رکھتے ہیں اس لئے حکومت قوانین کو بنانے کے ساتھ ان کی سپرٹ کے مطابق لاگو کرنے کیلئے بھی اقدامات کرے اور ان لوگوں کا بھی سوچے ،جہاں ایسے قوانین ان سہولیات کا منہ چڑارہے ہیں جہاں یا تو اسپتال یا ڈسپنسری سرے سے موجود ہی نہیں اور اگر ایسی کوئی چیز موجود ہے بھی تو ڈاکٹر اور دیگر عملہ نہیں اور ان ہسپتالوں میں جانور بندھے نظر آتے ہیں ہمیں معاملات ٹھیک کرنے کیلئے چاروں کونے درست کرنا ہونگے ، صرف ایک کونے کو خوش نما بنا کر داد حاصل نہیں کرنی، کیونکہ ایک کونا دوسرے کونے سے اسی طرح جڑا ہواہے کہ ایک کونے کی سلوٹ سب کو بدنما بناتی ہے کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ کی ہڑتال سے جڑے ہوئے دہشتگردی کے واقعہ کے حوالے سے اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ دہشتگردی کے واقعات کم ہوئے ہیں ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں اس لئے ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہیں اور میں نے گزشتہ کالم میں بھی یہ لکھا تھا جو لاہور کے سانحہ سے پہلے تحریر کیا گیا تھا کہ میچ فکسنگ ہمارے شاطر دشمن کی چال ہے اور اس کا اگلا قدم لاہور میں پاکستان سپر لیگ کے کھیلے جانے والے فائنل کو سبوتاژ کرنے کا ہوگا ، کیونکہ دشمن ہمیں کسی میدان میں ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا اور کرکٹ جو پورے ملک کو حب الوطنی کے جنون میں جوڑے ہوئے ہے اس کو ہمارے ملک میں پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتا۔

.
تازہ ترین