• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئے سال کا دوسرے مہینہ کی 13 اور16تاریخوں میں پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر محسوس کی گئی۔ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے دوا فروشوں کے دھرنےمیں15افراد تادم ِتحریر شہید ہوئے اور 87 زخمی ہیں۔ جبکہ سہون شریف کی درگاہ میں خودکش حملے میں 88 افراد شہید اور 350کے قریب زخمی ہیں۔ دہشت گردی کے دونوں واقعات بڑے تھے اور پاکستان کے خلاف مہم کا حصہ بھی،سہون شریف ایک بڑی درگاہ ہے جہاں بڑی تعداد میں عقیدت مند آتے ہیں۔لاہور میں پولیس کے ایک ڈی آئی جی، ایک ایس ایس پی اور 6 اہلکاروں نے دوسرے 10 پاکستانیوں کے ہمراہ جامِ شہادت نوش کیا۔ اس حوالے سے دُنیا بھرمیں بڑی خبریں بنیںاور ایک دفعہ پھر پاکستان کو غیرمحفوظ ملک ہونے کا تصور ابھارنے کی کوشش کی گئی، اِس واقعہ کی ذمہ داری تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کی، جوا ب میں پاکستان نے سخت ایکشن لیا اور آرمی چیف نے بدلہ لینے کا اعلان کیا اور 17 فروری کو تقریبا 100دہشت گرد ہلاک کر ڈالے اور افغانستان کے اندر گھس کر ذمہ دار تنظیم کے کیمپ تباہ کردیئے، ساتھ ساتھ طورخم سرحد بند کر دی اور افغان سفیر کو بلاکر 76 مطلوب افراد کی فہرست دی اور ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ جبکہ پنجاب میں دہشت گردی کرنے والے سہولت کا کو گرفتار کرلیا گیا۔ یوں پاکستان نے اپنے دہشت گردی کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
اگرچہ دہشت گردی کا واقعہ ہونے کی اطلاع نیکٹا نے ایک ہفتے قبل دیدی تھی مگر پنجاب کی حکومت ضروری اقدامات نہیں کرسکی جیسے کیمسٹ ایسوسی ایشن کے دھرنے کو روکا جاسکتا تھا یا اِس قسم کے کسی بھی دھرنے یا مظاہرے کو نہیں ہونے دینا چاہئے اور اب بھی اس کا خاص خیال رکھا جائے کہ پاکستان میں کہیں بھی مظاہرے نہ ہوں تو اچھا ہے۔ یاد رہے کہ 12 فروری 2017ء کو کراچی میں ایک ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی پر حملہ ہوا تھا اور ایک اسسٹنٹ پروڈیوسر شہید ہوگیا تھا، پھر 13 فروری کو ہی کراچی میں 3 افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، پھر اسی روز جنوبی وزیرستان میں 3 ایف سی اہلکاراور کوئٹہ میں 2 پولیس اہلکار شہید ہوئے، اس طرح دیکھا جائے تو دہشت گردوں نے ایکدم کئی جگہوں پر ایک ساتھ یلغار کی ہے، جس کی وجہ سے ایک ہی دن میں 26 افراد نشانہ بنے، جن میں پولیس اور ایف سی کو ملا کر 13 اہلکار ان میں 2 بڑے افسران تھے۔ یہ درست ہے کہ نیکٹا نے ایک ہفتہ پہلے اطلاع دی تھی مگر ہم یہ بات جانتے تھے کہ دہشت گردوں کی جس طرح سرکوبی کی گئی تھی وہ اُن کے طریقہ کار کو جان کر اور اُن کے تعاقب میں تندہی اور دلجمعی سے کام لیا گیا او انکی سرکوبی عزم و حوصلہ کے ساتھ کی گئی۔ ہمارا خیال تھا کہ دہشت گرد نئے طور طریقے اور نئے انداز کو اختیار کرکے زیادہ شدت سے حملہ آور ہوں گے اور پاکستان کے امن کو تہہ و بالا کرکے دُنیا میں خبر پھیلائیں گے کہ پاکستان ابھی تک غیرمحفوظ ہے پچاس سالہ تجربہ سے میں نے یہ دیکھا ہے کہ پاکستان کے ادارے محدود عرصے کی منصوبہ بندی میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں جس سے اُن کی تسلی و تشفی ہوجاتی ہے مگر طویل عرصے کی منصوبہ بندی پر ا بھی تک انکی دسترس مضبوط د نہیں ہوسکی ہے۔ مثال کے طور پر کراچی کے امن کے حوالے سے 1992ء آپریشن کے بعد ایک میجر جنرل صاحب نے مجھ سے اس وقت پوچھا جب دہشت گردی نے زور پکڑا کہ پھر سے کیا ہوگیا میں تو کراچی کو اچھی حالت میں چھوڑ کر گیا تھا، میں نے اُن سے کہا کہ آپ نے وقتی طور پر دہشت گردی کی پیش رفت کو روکا تھا، امن مصنوعی تھا اور دشمن کی مرضی کے عین مطابق آپ کو یقین دلانا تھا کہ آپ کامیاب ہوگئے اور دل میں یہ اطمینان سموئے آپ اپنے گھروں کو چلے گئے کہ انہوں نے اپنے حصے کا کام کردیا مگر وہ اِس صورتِ حال کو نہیں سمجھ سکے کہ دشمن مسلسل اُن کے ملک کو تباہ کرنے کے درپے ہے، وہ کچھ دم لے کر پھر سے حملہ آور ہوگا، اسی طرح سے طالبان کے معاملات دیکھ لیں وہاں بھی پاکستان کے ادارے ناکام ہوئے ہیں۔ ایک افسر کے آنے کے ساتھ معاملات یکسر بدل جاتے ہیں، وہ معاملات کو نئے سرے سے دیکھتے ہیں، ایک چھوٹے سے معاملے پر قابو پانے کے بعد اطمینان و سکون کی لہر اور کامیابی کی فخر دل میں سما جاتا ہے کہ انہوں نے ایک دشمن کو زیر کرلیا، وہ ابھی تک نہیں سمجھے کہ یہ دہشت گردی میراتھن کی دوڑ ہے، اس کیلئے کئی عشروں تک اپنے آپ کو مستعد رکھنا ہوگا، چاہے بظاہر مکمل امن آجائے۔ دیکھئے اِس مہینے دو کشتیوں کے ڈوبنے کے واقعات ہوئے جس میں 90 جانیں جانِ آفریں کے سپرد ہوئیں، کئی بسیں اور کوسٹر الٹ گئیں، جس سے درجنوں افراد اپنی جانوں سے گئے۔ یہ حادثات ہیں اور لاپرواہی ہے اور اپنے آپ کو سپرمین سمجھنا یا پیسے کا لالچ یا جلدی اترنے کی کوشش، یہ سب ساری باتیں نفسیاتی ہیں کہ ہر کام جلد کرنا اور جلد ختم کرنا چاہتے ہیں، مگر قوم ایک طرف اور حکومت کو دوسری طرف یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے، آپ اُسے کھینچ کر بڑا نہیں کرسکتے، اسی طرح دہشت گردی ایک روز ایک مہینے یا تین سال میں ختم نہیں ہوسکتی جبکہ دشمن آپ کے مسلسل درپے ہے اور ملک پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے،،اگر پاکستان چین پاکستان اقتصادی راہداری بنانے کیلئے اقدامات کررہا ہے تو دشمن نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ پاکستان کو ترقی کرنے نہیں دینا، چاہے اُس کو جنگ ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور اس کا پیغام وہ سرحدوں پر فائرنگ کرکے اور اسلحہ کی بے تحاشا خریداری اور تیاری، غیرضروری اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر کررہا ہے، سرحدوں پر فائرنگ کی بات کی جائے تو 13 فروری 2017ء کو ہی 3 فوجی شہید کئے اور اسلحہ خریداری کی بات کی جائے تو اس نے اُڑی کے واقعہ کے بعد سے 200 بلین ڈالرز کا تیارشدہ اسلحہ فرانس، اسرائیل اور روس سے خریدا ہے۔ یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ ہر ذریعہ اور ہر طریقہ بروئے کار لائے گا کہ پاکستان کو سی پیک کی تعمیر سے روکنے کی کوشش کریگا، 11، 12 اور 13 فروری کو کراچی میں 37 ممالک کے بحری افواج جمع ہوئیں اور ایک عالمی بحر کانفرنس بھی منعقد ہوئی اور پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے 14 فروری کو اِن بحری مشقوں کے اختتام پر صلح جوئی کا پیغام اس وقت دیا جب بھارت کا پاکستان کو تنہا کرنے کا منصوبہ ناکام ہوا اور پاکستان کے طاقتور ملک ہونے کا تصور اُجاگر ہوا اور بھارت کو یہ بات سمجھ میں آجانا چاہئے کہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے جس کی تصدیق سابق چیف آف دی آرمی اسٹاف اور موجودہ چیف نے بھی 13 فروری 2017ء کو کردی اس کے بعد بھارت کو کسی مہم جوئی کی بجائے مصالحت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے اور اپنے عوام کی سلامتی اور تحفظ کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہئے، پاکستان خطہ کی سلامتی کیلئے ایسا کرنے کی پیشکش کئی مرتبہ کرچکا ہے۔



.
تازہ ترین