• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہاتھ میں پکڑی چھوٹی سی ڈیوائس جسے ہم موبائل فون کہتے ہیںنے ایک خطرناک شکل اختیار کرلی ہے رابطوں کا ذریعہ بننے والی اس ڈیوائس میں کیمرہ کی سہولت ڈال دینے سے موبائل فون کی افادیت یا خطرناک حیثیت نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے ، پھر سوشل میڈیا کے تڑکے نے’’سونے پرسہاگے‘‘ کا کام کیا ہے ، دو شخص لڑائی کررہے ہوں تو تیسرا چُھڑانے کی بجائے اپنا موبائل نکال کر ویڈیو بنا رہا ہوتا ہے ، مارکیٹوں، بازاروں اور تقاریب میں جانے اور شرکت کرنے والی خواتین جو بظاہر اپنی تصاویر سنبھال سنبھال کر رکھتی ہیں یا اپنے چہروں کو کیمرے سے دور رکھنا چاہتی ہیں انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ کب کس نے چپکے سے ان کی تصویر یا ویڈیو بنا لی ہے ، اور پھر اسے سوشل میڈیا کی زینت بناڈالا، تعلیمی اداروں اور گھریلو تقاریب میں لڑکیوں کی آپس کی بے تکلفی یا ڈانس کی ویڈیوز نے کئی گھروں کے سکون کو غارت کردیا ہے ، میں کافی روز سے اس حوالے سے کچھ لکھنا چاہ رہا تھا کیونکہ ایک والد کی بیان کردہ ایک کہانی نے مجھے بہت رنجیدہ کردیا تھا، اس کا کہنا ہے کہ کالج کی ایک ویڈیو جو موبائل کیمرے کے ذریعے بنائی گئی تھی کے ذریعے میری بچی کا مستقبل اس طرح برباد کردیا گیا کہ شادی کے چند روز قبل وہ ویڈیواس کے منگیتر کو دکھا کر اسے متنفر کردیا گیا ہم نے بہت وضاحتیں دیں قرآن پر حلف دینے کی کوشش کی لیکن میری بیٹی کے منگیتر اور اس کے والدین نے صاف انکار کردیا ، اس طریقے سے ایک اور واقعہ کو بھی میرے علم میں لایا گیا کہ محبت اور دوستی کی آڑ میں نوجوان لڑکی کی ایسی ویڈیو بنالی گئی جو خود لڑکی اور اس کے والدین کیلئے ایک ایسا زہر ثابت ہوئی جو اب ساری زندگی اس لڑکی اور اس کے والدین والوں کے دل جگر اور جسم کو کاٹتی رہے گی، ایسے کئی واقعات ہیں جو ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں ، اس طرح اس کے کچھ اور پہلو بھی ہیں چند دنوں سے پنجاب پولیس کے ایک اہلکار نے سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ ہونے والی محکمانہ ناانصافی اور زیادتی کی ویڈیو بنا کر فیس بک پر اپ لوڈ کردی جس نے پولیس کے محکمے اور خود وزیر اعلیٰ پنجاب کیلئے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں، اس موبائل کے ذریعے کچھ سیاسی رہنمائوں کی بھی وہ باتیں جو وہ نجی گفتگو میں یا پارٹی اجلاس میں کررہے تھے ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا کے ذریعے عام کردیا گیا، کچھ سرکاری افسران کی وہ گفتگو جو انہوںنے نجی محفلوں میں اعلیٰ عہدیداران کے خلاف کیں تو کچھ ابن الوقت اور مفاد پرست لو گوں نے جو ان ویڈیوز کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے تھے کے ز ر یعے انہوںنے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ، یقیناً اس حوالے سے کچھ قوانین بھی ضرور ہونگے لیکن پہلے تو یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ کس کی ڈیوائس سے بنائے گئے ہیں اور اگر ثابت ہوبھی جائے تو لوگ اس کو اچھال کر مزید اپنے لئے بدنامی کا باعث نہیں بنانا چاہتے ، اسلام آباد کی ایک سفارتی تقریب میں ایک مرتبہ ایسی ہی بدمزگی پیدا ہوئی جب دو نوجوان لڑکیوں نے ایک شخص پر یہ شبہ ظاہر کیا کہ اس نے ڈرنک کرتے ہوئے ان کی ویڈیو بنا لی ہے ، ان لڑکیوں کا کہنا تھا کہ وہ کوئی ایسا مشروب نہیں پی رہی تھیں جو قابل اعتراض ہو لیکن انہیں شک ہے کہ اس ویڈیو سے یہ تاثر لیا جاسکتا ہے کہ وہ کوئی غلط مشروب پی رہی تھیں اور اس ویڈیو سے ان کی زندگیاں تباہ ہوسکتی ہیں، ان لڑکیوں سے بہت سارے سوالات کئے جاسکتے تھے لیکن وہاں ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے ۔ویڈیو بنا نے والا شخص جو ایک سرکاری ملازم تھا بار بار یقین دہانی کروا رہا تھا کہ اس کے موبائل فون کو چیک کرلیا جائے اور اس میں ایسی کوئی ویڈیو ملے ، جو ان لڑکیوں کے متعلق ہے تو میں سزا کیلئے حاضر ہوں اور ان لڑکیوں کے سا تھ موجود ایک لڑکے نے وہ موبائل چیک بھی کیا لیکن اسے کوئی ایسی ویڈیو نہ ملی لیکن لڑکیاں بضد تھیں کہ ان کی ویڈیو بنائی گئی ہے، تاہم کچھ شرفاء کی مداخلت سے یہ معاملہ حل ہوگیا، ایسے لاتعداد واقعات ہوتے ہیں جنہیں ہم بھی سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں۔ قانونی ضابطے اس وقت تک غیر مؤثر ہوتے ہیں جب تک اخلاقی ضابطوں کو زندگی کا حصہ نہ بنایا جائے ، اس لئے لوگوں کو دوسروں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنے اور دوسروں کی زندگیوں میں زہر گھولنے سے اجتناب کرنا چاہیے جبکہ والدین کیلئے بھی ضروری ہے کہ اگر ان کے بچوں کو موبائل فون یا ٹیبلٹ دینا ضروری ہے تو ان پر کڑی نظر بھی رکھیں بچوں کے ڈیوائس کا پاس ورڈ، ان کے علم میں ہونا چاہیے اور گاہے بگاہے اس ڈیوائس کو چیک کرتے رہیں اور اگر ہوسکے تو رات اور فارغ اوقات میں بچوں سے وہ ڈیوائس لے کر اپنے پاس رکھیں ورنہ یہ خطرناک ڈیوائس کسی وقت بھی زندگی میں زہر گھول سکتی ہے ۔

.
تازہ ترین