• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سرسبز سندھ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کی نذر ہو رہاہے اس صورتحال کے پیش نظر سندھ میں کروڑوں مالیت کے درختوں کی کٹائی کا تفتیشی ایجنسیوں نیپ اور اینٹی کرپشن نے نوٹس لیا ہے۔ پورے ملک میں ہی ماضی کے مقابلے بارشیں کم ہوئی ہیں جبکہ سندھ میں اس کی شرح کم ہونے اور درجہ حرارت 52سینٹی گریڈ کی سطح تک پہنچنے کی وجہ سے حیاتیات اور زراعت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ جس سے صوبہ سندھ میں معاشی اور معاشرتی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر گزشتہ 30سال میں جاگیردار سیاستدانوں نے درختوں کی اہمیت کو نظرانداز کیا ہے اور اب صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ میں کوئی نہر، سڑک عمارت اور تفریحی مقام یا فاریسٹ ایسا نہیں جہاں بااثر افراد نے درختوں کی کٹائی نہ کی ہو۔ ماضی میںشجرکاری کے موسم میں 35میٹر سڑکوں پر شجرکاری کی جاتی تھی پودوں کی نرسریاں قائم کی جاتی تھیں جس سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی آتی جبکہ روزگار کے مواقع فراہم ہوتے تھے۔یہ حقیقت ہے کہ عام آدمی کو جلانے کیلئے ایندھن دستیاب نہیں اور جہاں دستیاب ہے وہاں اس کے نرخ غریب عوام کی دسترس سے باہر ہیں۔دوسری طرف ان درختوں کی کٹائی کا مالی فائدہ متمول اور بااثر طبقے کو ہورہا ہے۔ درختوں کی بے رحمانہ کٹائی کا مسئلہ صرف سندھ تک محدود نہیں بلکہ دیگر صوبوں میں بھی یہ مسئلہ تیزی سے سنگین ہوتا جارہا ہے۔ وفاقی اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے کروڑ پودے لگانے کا اعلان کیا تھا مگر اس باب میں بھی اب تک کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں درختوں کی کٹائی رکوائیں، اس سلسلے میں نہ صرف قانون کو سخت کیا جائے بلکہ اس پر سختی سے بھی عمل کرایا جائے۔ خاص طور پر حکومت سندھ جس دن اجرک اور ٹوپی کا دن مناتی ہے اعلان کردے کہ ہرشخص اجرک ٹوپی پہن کر ایک پودا لگائے۔ امید کی جانی چاہئے کہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں گے۔

.
تازہ ترین