• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر ترکی کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں جدید جمہوریہ ترکی کے بانی غازی مصطفےٰ کمال ملک میں صدارتی نظام پر بھر پور طریقے سے عمل درآمد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ اس دور میں ملک میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد جمہوریت اور پارلیمانی نظام کی بنیاد رکھی گئی تھی لیکن اس دور میں ہونے والے تمام فیصلوں اور انقلابات پر عملی طور پر مصطفےٰ کمال اتا ترک ہی کے دستخط موجود تھے۔ صدر اتاترک نے اپنے کلی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ہی دستِ راست اور قریبی ساتھی عصمت انونو کو ملک کا وزیراعظم مقرر کیا۔ وہ اپنے فیصلوں سےعصمت انونو کو صرف آگاہ کرنے پر ہی اکتفا کرتے اور کبھی ان کو اپنے فیصلوں میں شریک نہ کرتے تاہم فیصلہ کرنے کے بعد عمل درآمد کا کام انونو کے سپرد کردیا جاتا تاکہ وہ پارلیمنٹ سے ان فیصلوں کی توثیق کروا سکیں۔ اس دور میں پارلیمنٹ سے فیصلوں کی توثیق کروانا کوئی مشکل کام نہ تھا کیونکہ پارلیمنٹ میں صدر اتاترک ہی کے منتخب کردہ اور نامزد کردہ اراکین موجود ہوتے تھے جو صدر اتاترک کے احکامات کی تعمیل کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ اتاترک ترکی کو ’’مردِ بیمار‘‘ کے اسٹیٹس سے نکال کر جدید بنیادوں پر استوار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اتاترک کی زندگی میں عصمت انونو کو ایک مہرے کے سوا کوئی خاص حیثیت حاصل نہ تھی، اصل اقتدار اتاترک ہی کے ہاتھوں میں تھا۔ اتاترک کی وفات کے بعد عصمت انونو نے فوج کے تعاون سے اپنےآپ کو صدر منتخب کرواتے ہوئے وہی اختیارات حاصل کرلیے جو کہ صدر مصطفےٰ کمال اتاترک کو حاصل تھے۔ جب ہم موجودہ دور میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کی سیاست اور پالیسی پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو یہ جماعت اپنے بانی رہنماؤں کے اصولوں سے رو گردانی کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے حالانکہ یہ جماعت زندگی کے تمام ہی شعبوں میں اتاترک کے اصولوں پر عمل درآمد کرنے کا پرچار کرتی چلی آئی ہےلیکن موجودہ دور میں صدارتی نظام کی مخالفت کرنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ عوام کی حمایت حاصل کرنے سے محروم رہنا ہے۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہے ملک میں صدارتی نظام قائم ہونے سے ان کیلئے اقتدار حاصل کرنے کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائینگے۔ اس پارٹی نے مرحوم وزیراعظم بلنت ایجوت کے دورِ اقتدار کو چھوڑ کر کبھی 25فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کیے ہیں اور صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے امیدوار کو50فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہےجبکہ اس جماعت کو اس بات کا پورا پورا احساس ہے کہ وہ اگر اپنی پوری توانائیاں بھی صرف کردے تو کسی بھی صورت35فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کرسکتی۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی ابھی تک صدارتی نظام کے خلاف اپنے آپ کو صرف واویلا مچانے تک ہی محدود رکھے ہوئے ہے شاید وہ اس طریقے سے فوج کے ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کرنے کی توقع کیے ہوئے ہے لیکن وہ یہ بات فراموش کررہی ہے کہ اب ترک فوج 15جولائی سے قبل والی فوج نہیں ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پارلیمانی نظام ترکی کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اسی نظام کی وجہ سے مخلوط اور غیر مستحکم حکومتوں کی وجہ سے ترکی نے ہمیشہ ہی نقصان اٹھایا ہے۔ آپ جب ترکی کی ستر، اسی اورنوے کی دہائی پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ان ادوار میں ترکی میں جس تیزی سے حکومتیں ڈیڑ ھ سے دو ماہ کے اندر گرتی رہیں اور بنتی رہیں دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ شاید اس قسم کی صورتِ حال پچاس کی دہائی میں پاکستان میں دیکھی گئی تھی۔ حکومتوں کو گرانے اور بنانے کا ڈرامہ ترکی کی اسکرین پر تین دہائیوں تک کھیلا جاتا رہا۔ صرف 2002ء میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ حکومت کے قیام سے قبل ترکی میں کوئی بھی حکومت( ترگت اوزل کی حکومت کے پہلے دور کو چھوڑ کر) اپنی میعاد پوری نہیں کرسکی ہے اور نہ ہی ان میں پورا کرنے کی کبھی سکت تھی۔ حکومت کو گرانے اور بنانے کے اس کامیڈی ڈرامے کے ساتھ ساتھ ترکی میں صدر کے انتخاب کے بارے میں بڑے خطرناک کھیل کھیلے جاتے رہے۔ ترکی میں جلال بایار کو چھوڑ کر کنعان ایورن تک جتنے بھی صدور گزرے ہیں ان کا تعلق فوج ہی سے رہا ہے اور فوج نے ہمیشہ ہی پارلیمنٹ کو فوجی صدر منتخب کرنے پر مجبور کیا ہے۔ فوج نے 2007ء میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے نامزد صدر عبداللہ گل کیلئے پارلیمنٹ کے367 اراکین کی حمایت حاصل کرنے کی شرط کو عدلیہ کے ذریعےلگوا کر اور پھر نصف رات کو انٹر نیٹ کے ذریعے اعلامیہ اورحکمنامہ جاری کرتے ہوئےاگلے روز پارلیمنٹ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی راہ کو جس طریقے سے مسدود کیا اس کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے؟ اس موقع پر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے عقلِ سلیم سے کام لیتے ہوئے پارلیمنٹ سے آئین میں ترامیم کروائیں اور صدر کو براہ راست عوام کی جانب سے منتخب کروانے کی راہ ہموار کروا کر ملک میں صدارتی نظام کے قیام کی پہلی اینٹ رکھ دی تھی۔
صدر ایردوان کے مطابق صدارتی نظام ترکی کے سیاسی استحکام اور ترقی کیلئے بے حد ضروری ہے۔ صدارتی نظام میں صدر پارلیمنٹ کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے اپنی پسند کے وزرا کا انتخاب کرسکتا ہے اور اس کو حاصل پچاس فیصد سے زائد ووٹوں کی وجہ سے حکومت گرنے، دیگر کسی جماعت کو اپنے اقتدار میں شامل کرنے اور نہ ہی فوجی مداخلت کا کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ وہ اپنی مدتِ میعاد پوری کرنے کے بعد دوسری بار بھی عوام سے رجوع کرسکتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں صدر اپنے علامتی اختیار ات کے باوجود ہر طرح کے اختیارات کو استعمال کرتا رہا ہے لیکن وہ کبھی بھی پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں رہا لیکن صدارتی نظام میں ایسا ہر گز نہیں ہے صدر اپنے اختیارات کے استعمال کے بارے میں پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہے۔ صدارتی نظام میں مقننہ کو قوانین تیار کرنے کے علاوہ کوئی اور اختیارات حاصل نہ ہوگا یعنی دوسرے معنوں میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ایک دوسرے سے بالکل آزاد اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔ صدارتی نظام میں ایک اور اہم تبدیلی گورنروں کا براہ راست انتخاب ہے اور گورنر صرف عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کریں گے۔ ترکی کا صدارتی نظام متحدہ امریکہ کے صدارتی نظام سے ہٹ کر صرف ایک مقننہ پر مبنی ہوگا جس کے اراکین کی تعداد 600ہو گی اور یہ تمام اراکین عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب کیے جائینگےعلاوہ ازیں ترکی میں ریاستوں یا فیڈرل حکومت کے قیام کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔ صدارتی نظام میں امیدوار کسی جماعت سے یا پھر آزاد امیدوار کے طور پر بھی حصہ لے سکے گا اور پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں ملک کا صدر منتخب ہوسکے گا۔



.
تازہ ترین