• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خونریز دھماکے کے بعد کئی جتھے سیہون کے لئے کراچی سے روانہ ہورہے تھے۔ان میں زخمیوں کو طبی امداد دینے والوں کے جتھے تھے۔ میں چونکہ ڈاکٹر ہوں نہ نرس ہوں اور نہ کسی زخمی کی مرہم پٹی کرسکتا ہوں اس لئے طبی امداد دینے والے جتھوں کے ساتھ میں نے سیہون جانا مناسب نہ سمجھا۔کچھ جتھے دیئے اور موم بتیاں لیکر سیہون جارہے تھے۔میں نے ان کے ساتھ سیہون جانا مناسب نہیں سمجھا۔میں جانتا تھا کہ کچھ روز بعد سیہون کے سانحے میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کے سوگ میں کراچی کے لوگ پریس کلب‘ صدر اور فائیواسٹار ہوٹلوں، چیف منسٹر ہائوس اور گورنر ہائوس کے باہر سڑکوں اور فٹپاتھوں پر دیئے اور موم بتیاں جلائیں گے اور برگر کھائیں گے۔میں بھی کراچی پریس کلب کے باہر فٹ پاتھ پر موم بتی جلائوں گا۔تصویریں کھنچوائوں گا برگر کھائوں گا۔ہم کراچی والوں نے سب سے پہلے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ڈیانا کے سوگ میں دیئے اور موم بتیاں جلائی تھیں۔اس کے بعد سے آج تک ہر سانحے کے بعد ہم سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر موم بتیاں جلاتے ہیں۔ایک مرتبہ ایک دن میں چار بینکوں میں ڈاکے پڑے‘ معہ منیجروں‘ بینک کے پریزیڈنٹ، وائس پریزیڈینٹوں اور اہم شخصیات نے فٹ پاتھوں پر موم بتیاں جلائی تھیں۔موم بتیاں جلانے والوں میں بینک لوٹنے والے اور بینک سے لئے ہوئے قرضے معاف کرانے والوں کی خاصی تعداد تھی۔ یہی وجہ تھی کہ موم بتیاں جلانے والے جتھوں کے ساتھ میں نے سیہون جانا مناسب نہیں سمجھا۔
کچھ جتھے ناچنے اور گانے کیلئے سیہون جارہے تھے۔میں پیدائشی بے سرا ہوں۔کہتے ہیں کہ جب میں پیداہوا تھا تب بے سرا رویاتھا۔ اپنے بے سرے ہونے کا پتہ چل جانے کے بعد میں پبلک کے سامنے نہیں روتا۔میں باتھ روم میں جاکر روتا ہوں۔مجھے ناچنا بھی نہیں آتا۔مگر میں آنگن ٹیڑھا ہونے کی بات نہیں کرتا۔ میں سب کو بتادیتا ہوں کہ مجھے ناچنا نہیں آتا۔اگر آپ ناچنا نہیں جانتے تو پھر بھول کر بھی ناچنے والوں کے ساتھ سفرکرنے کی غلطی کبھی مت کیجئے گا۔وہ آپ کو تگنی کاناچ نچوادیں گے۔میں نہیں چاہتا تھا کہ کوئی مجھے تگنی کاناچ نچوائے۔اس لئے ناچنے اور دھمال ڈالنے والوں کے ہمراہ میں نے سیہون جانا ٹھیک نہیں سمجھا۔اسی میں میری عافیت تھی۔ادیبوں‘ شاعروں‘ صحافیوں کے جتھے بھی سیہون جانے کیلئے تیار کھڑے تھے۔میں چونکہ نہ ادیب ہوں‘ نہ شاعر ہوں‘ نہ صحافی ہوں اس لئے انہوں نے مجھے اپنی گاڑیوں کے قریب آنے نہیں دیا۔گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے ادیب‘ شاعروں اور قلمکاروں کے درمیان میں نے ہم عمر لکھاری کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ مگر وہ مجھے نہیں ملا۔سب لکھاری جواں سال تھے۔ایک خوبصورت خاتون اینکر پرسن نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے گنجے ساتھی سے کہا ’’یہ بڈھا کھوسٹ مجھے خودکش بمبار لگتا ہے۔گنجے ساتھی نے میری طرف دیکھتے ہوئے خوبصورت کمپیئرسے کہا ’’یہ بڈھا کھوسٹ خودکش بمبار نہیں ہے۔ اس نے ململ کا کرتا پہن رکھا ہے اوراس کا گریبان بھی چاک ہے۔ میں اس کی پسلیاں گن سکتا ہوں۔خودکش بمبار بارود سے بھری ہوئی بھاری بھرکم جیکٹ پہن کر آتے ہیں۔
خوبصورت اینکرپرسن نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا ’’اصل میں اس کھڑوس بڈھے جیسے خودکش بمبار ہونے چاہئیں جو قبر میں پیر لٹکائے ہوئے ہوتے ہیں۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ دہشتگرد نوخیزلڑکوں کو خودکش بمبار کیوں بناتے ہیں جن کے آگے پوری زندگی پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ان کی وہ عمر پڑھنے ‘لکھنے‘ سیکھنے دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کی ہوتی ہے۔مگر دہشتگرد انہیں خودکش بمبار بنادیتے ہیں۔جتھوں کے درمیاں ادھر سے ادھر بھٹکتے ہوئے میں ایک ایسے جتھے کے قریب سے گزارا جو میری طرح ادھر ادھر بھٹکنے والوں کو اپنے ساتھ سیہون لے جانے کی خلوص دل سے دعوت دے رہے تھے مگر لوگ ان سے کترارہے تھے۔میں نے ان کے ساتھ سیہون جانے کی حامی بھرلی اور بس میں سوارہوکر ڈرائیور کے قریب والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔وہ لوگ دھماکے کے بعد سیہون شریف کی درگاہ اور آس پاس کی صفائی ستھرائی کرنے اور فرش دھونے اور جھاڑو پو نچاکرنے جارہے تھے۔
میری زندگی جھاڑو پونچا کرتے،برتن مانجھتے اور میلے کپڑے دھوتے گزری ہے۔اس جتھے میں سب میری طرح کے کام کاج سے وابستہ لوگ تھے۔ہم نے خون آلود فرش پہلے کبھی نہیں دھوئے تھے۔ہم نے قلندر لعل شہباز کے مقبرے،صحن، احاطے،پچھواڑے کے خون آلود فرش اور خون آلود دیواریں دھوکرصاف کیں۔ہر طرف پھیلے ہوئے، ٹوٹے ہوئے کانچ اور کرچیاں اٹھائیں اعضاء اٹھائے، پچھواڑے میں جھاڑو دیتے ہوئے میں نے کلائی سے کٹے ہوئے دو ہاتھ دیکھے۔ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔احاطے سے میں نے کئی اعضاء اٹھائے تھے لیکن میرا دل اس طرح نہیں کانپاتھا۔ میں نے جھک کر دونوں ہاتھ اٹھالئے۔ایک ہاتھ بڑا تھا اور وہ دایاں ہاتھ تھا۔دوسرا ہاتھ چھوٹا تھابلکہ ننھا مناتھا اور وہ ہاتھ بایاں تھا۔ننھے ہاتھ نے بڑے ہاتھ کی پہلی انگلی زور سے پکڑ رکھی تھی۔میں نے ننھے ہاتھ کی مٹھی سے بڑے ہاتھ کی انگلی چھڑانے کی کوشش کی۔مگر بے سود‘ مجھے لگاجیسے بڑے ہاتھ کی انگلی چھوٹے ہاتھ کی مٹھی میں چپک گئی تھی۔ دونوں ہاتھ میں احاطے میں لے آیا۔ایک میزپر کھڑے ہوکر میں نے پوچھا: آپ کاکوئی اپنا‘ دھماکے میں جس کا دایاں ہاتھ کلائی سے کٹ گیاہو؟
لوگوں میں کھلبلی مچ گئی‘ سب لوگ غور سے دونوں ہاتھوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ایک بدحال بوکھلایا ہوا شخص ہجوم سے نکل کر آگے آیا۔اس نے کہا: ایک ہاتھ دادا کا ہے اور ایک ہاتھ پوتے کاہے۔
میں نے پوچھا: تم کیسے کہہ سکتے ہوکہ ایک ہاتھ داداکا اور دوسرا ہاتھ پوتے کاہے؟
بدحواس شخص نے کہا: بڑا ہاتھ میرے والد کا ہے اور چھوٹا ہاتھ میرے بیٹے کاہے۔
میںنے پوچھا: کہاں ہیں وہ دونوں؟ بدحال شخص نے مجھے بازو سے تھام لیا اور کہا: تم ان کو دیکھناچاہتے ہو؟ آئو میرے ساتھ۔
بدحال شخص مجھے تقریباً کھینچتے ہوئے مقبرے کے قریب لے گیا۔سیکورٹی کی وجہ سے کسی کو مقبرے کے اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔لوگ جالیوں سے کھڑکیوں سے اور سیڑھیوں پر چڑھ کر روشندانوں سے مقبرے کے اندر دیکھ رہے تھے۔لوگوں کو پرے کرتے ہوئے وہ مجھے لکڑی کی جالی کے قریب لے گیا۔مقبرے کے اندر سے دھمال کی آواز آرہی تھی۔میں نے جھانک کر مقبرے کے اندر دیکھا۔ ایک باریش بوڑھا شخص اور پانچ چھ برس کا بچہ محور رقص تھے۔دونوں بانہیں آسماں کی طرف کرکے ناچ رہے تھے اور گارہے تھے:
تو کیا جانے ملا
میں جانوں
میرا اللہ جانے
میں نے دیکھا بچے کا بایاں ہاتھ اور بوڑھے شخص کا دایاں ہاتھ دونوں کلائی سے کٹے ہوئے تھے۔


.
تازہ ترین