• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت اچھا ہوا کہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ بھی اچھی بات ہے کہ اقتصادی تعاون تنظیم کی کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ بہت احسن ہوا کہ بالآخر پارلیمانی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کےتمام قسم کے دہشتگردوں کے ٹرائل کے اختیارات میں توسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بڑی اچھی خبریں ہیں مگر کچھ لوگوں کو یہ ہضم نہیں ہورہیں۔ یہ تمام ایونٹس ایسے وقت میں ہوئے جب پاکستان میں دہشتگردی کی ایک نئی لہر نے سراٹھایا ہے۔ تاہم حکومت، تمام ریاستی اداروں، سیاسی جماعتوں اور قوم نے ثابت کیا ہے کہ وہ دہشتگردوں سے ڈرتے نہیں ہیں اور اپنی معمول کی زندگی جاری رکھنے کی جرات اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ اس طرح دہشتگرد بری طرح ناکام ہوئے ہیں جن کا منصوبہ یہ تھا کہ خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کرکے پاکستان میں کوئی بھی بڑا ایونٹ نہ ہونے دیا جائے۔ ان تمام واقعات سے یقیناً پاکستان کا امیج بیرونی دنیا میں بہت بہتر ہوا ہے اور یہاں سے یہ پیغام گیا ہے کہ بے شمار اندرونی اور بیرونی سازشیں بے کار ثابت ہوئی ہیں اور قوم میں اتنی ہمت ہے کہ وہ انہیں ناکام بنا سکے۔
پہلے بات کرتے ہیں پی ایس ایل کی۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے حسب عادت مخالفت میں بیان دیتے ہوئے کہاکہ پی ایس ایل فائنل لاہور میں کرانا پاگل پن ہے اور اگر خدا نخواستہ کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہو گیا تو اگلے دس سال پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہوسکے گی۔ اس کے جواب میں حکومتی وزرا نے کہا کہ عمران خان کا یہ بیان پاگل پن ہے۔ اپنے تازہ فرمان سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی پی ایس ایل فائنل لاہور میں کرانے پر زور دے چکے تھے۔ ایک سابق نامی گرامی کرکٹر ہونے کے ناطے سے عمران خان کو تو چاہئے تھا کہ وہ پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں انعقاد کا کھل کر خیرمقدم کرتے۔ تکلیف دہ بات ہے کہ ان کے بیان کی وجہ سے کچھ دوسرے ممالک کے کھلاڑی جو پی ایس ایل کی ٹیموں کا حصہ تھے نے پاکستان میں فائنل کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔ عمران خان کو اپنی آخری بات پر نظر ثانی کرکے اعلان کرنا چاہئے کہ وہ فائنل دیکھنے لاہور جائیں گے اس سے نہ صرف کرکٹ کے کھلاڑیوں اور شائقین کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ ان کا اپنا سیاسی قدکاٹھ بھی بڑھے گا۔ رہی ان کی یہ بات کہ اگر دہشتگردی کا واقعہ ہوگیاتو اگلے دس سال پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہوگی تو پہلے ہی پاکستان میں کون سی ایسی کرکٹ ہو رہی ہے۔ ایک عرصہ سے ہم اس سے محروم ہیں۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ پی ایس ایل بھی دبئی میں ہی کھیلا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں ہونے پر خوش نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے یہ ثابت کرنا ہے کہ لاہور دہشتگردی سے پاک ہے۔ ایک طرف عمران خان اور آصف زرداری جیسے سیاستدان ہیں جو ایسے بیانات دے کر صرف اور صرف حکومت کا مذاق اڑانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف عوام ہیں جو پی ایس ایل فائنل کے ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے دیوانے ہوگئے۔ گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہے جن کو ٹکٹ نہیں ملا وہ دلبرداشتہ ہوئے۔ لاہور میں فائنل سے تین دن پہلے ہی ایک جشن کا سماں ہے اور لوگوں کی خوشی دیدنی ہے۔ 9/11 کے چند دن بعد ہی اس وقت کے امریکی صدر نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنی نارمل ا سپورٹس سرگرمیاں شروع کر دیں اور جہاں تک دہشتگردی سے نپٹنے کا تعلق ہے وہ حکومت بڑے بھرپور انداز میں سرانجام دے گی۔ یہ ہوتی ہیں باتیں لیڈروں کی نہ کہ عوام کو دہشتگردی کے ہونے سے ڈرانا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پی ایس ایل فائنل کیلئے ہر قسم کی سیکورٹی دینے کو تیار ہیں۔
ای سی او سمٹ بہت کامیاب رہی کیونکہ 10 میں سے 9 ملکوں کے سربراہان مملکت یا حکومت نے اس میں بھرپور شرکت کی۔ افغانستان کے صدر اس سے دور رہے اور افغان سفیر نے اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ اس کانفرنس سے بھی دنیا پر یہ واضح ہوا کہ اگرچہ پاکستان میں دہشتگردی کے اکا دکا واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر یہاں اس لعنت نے ملک کو اس حد تک مفلوج نہیں کر دیا کہ یہاں کچھ پرامن انداز میں ہو ہی نہیں سکتا۔ صدر اشرف غنی نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرکے اپنے آپ کو ’’سنگل آئوٹ‘‘ کر لیا ہے اور کسی بھی ای سی او کے ممبر ملک نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ افغانی صدر سمٹ میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ ان کے آقا ناراض ہو جائیں گے۔ بھارت تو بہت ناراض ہوتا اگر وہ اسلام آباد اس کانفرنس کیلئے آ جاتے۔ اشرف غنی نا خوش ہیں کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے ان کے علاقے میں قائم دہشتگردوں کی ’’سیف ہیونز‘‘ کو نشانہ کیوں بنایا۔ آخر پاکستان کیا کرے جبکہ اس کی سرزمین پر دہشتگردی کے تمام بڑے بڑے واقعات افغانستان میں موجود دہشتگرد بھارت کی ایماپر کر رہے ہیں۔ ظلم کی بات یہ ہے کہ افغان حکومت ان دہشتگردوں کے خلاف نہ تو کوئی خود ایکشن لیتی ہے اور نہ ان کو وہاں سے پاکستان کی طرف بھگاتی ہے تاکہ یہاں ان کا خاتمہ کیا جاسکے۔ سب کو معلوم ہے کہ ردالفساد کے شروع کرنے کا مقصد ہی دہشتگردی کی نئی لہر جو کہ افغانستان سے بھرپور انداز میں شروع کی گئی ہے کو ختم کرنا ہے۔
پارلیمانی جماعتوں نے ملٹری کورٹس کے اختیارات میں توسیع کیلئے بہت سے اجلاس کیے مگر بے سود رہے۔ آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ یہ توسیع دینا ضروری ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے نمائندوں نے آخری اجلاس جس میں توسیع پر اتفاق رائے ہوا شرکت نہیں کی اور وہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ایک آل پارٹیز کانفرنس علیحدہ منعقدکرکے بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے سوائے حکمران نون لیگ کے تمام پارلیمانی جماعتوں کو مدعو کیا ہوا ہے۔ کوئی بھی ایسی بات نہیں جو کہ اس اے پی سی میںان پارلیمانی جماعتیں نے کرنی ہے جو کہ انہوں نے حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں نہیں کی لہذا اے پی سی ایک بیکار مشق ہے۔ پی پی پی اس مسئلے پر پیچھے رہ گئی ہے اور اب اسے بھی اس آئینی ترمیم کے ڈرافٹ کے ساتھ متفق ہونا پڑے گا جو کہ پارلیمانی جماعتوں نے اتفاق رائے سے بنایا ہے۔ پی ٹی آئی نے اس مسئلے پر عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس نے اس ڈرافٹ پر حکومت کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے ساتھ ساتھ اس نے پی پی پی کی طرف سے اے پی سی میں شمولیت کی دعوت کو بھی مسترد کر دیا ہے۔پی پی پی کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ خطرناک دہشتگردوں کا علاج فوری اور سخت سزائیں ہیں جو صرف فوجی عدالتیں ہی دے سکتی ہیں نہ کہ عام کورٹس۔ اسے تو چاہئے تھا کہ یہ فوراً اس پر متفق ہو جاتی کیونکہ اس کی اپنی لیڈر بینظیر بھٹو شہید ان دہشتگردوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔ فوجی عدالتوں کی اب مدت تین سال سے کم کرکے دو سال کر دی گئی ہے اور ایک پارلیمانی اوور سائٹ کمیٹی بھی بنائی جائے گی جو ان عدالتوں کی کارکردگی پر نظر رکھے گی۔

.
تازہ ترین