• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہونے والا اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) کا اجلاس نہ صرف اقتصادی حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل تھا بلکہ اجلاس کی کامیابی کو بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اُڑی حملے کے بعد بھارت کی یہ کوشش رہی کہ وہ کسی طرح پاکستان کو خطے میں تنہا (Isolate) کردے، گزشتہ سال پاکستان میں سارک کانفرنس کا التوا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں نہ صرف بھارت نے شرکت سے انکار کیا بلکہ خطے کے دیگر ممالک پر بھی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کیلئے دبائو ڈالا، نتیجتاً پاکستان میں سارک کانفرنس منعقد نہ ہوسکی اور سارک تنظیم کا وجود خطرے میں پڑگیا۔ بھارت نے ’’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘‘ کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کیا اور عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا اور بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) کے اجلاس سے قبل بھارت کی کوشش رہی کہ یہ اجلاس پاکستان میں کامیابی سے ہمکنار نہ ہونے پائے۔ اس مقصد کیلئے بھارت نے خطے میں اپنی اہمیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ای سی او کے رکن ممالک پر اجلاس میں شرکت نہ کرنے کیلئے دبائو ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بھارت کو اپنے مذموم مقاصد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور افغانستان کے سوا تمام 9 رکن ممالک کے سربراہان نے اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرکے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا جس سے بھارت کا پاکستان کو خطے میں تنہا کرنے کا خواب چکناچور ہوگیا۔ ECO اجلاس میں چین کو بطور مبصر مدعو کیا گیا تھا جس کے خصوصی نمائندے نے اجلاس میں شرکت کی۔
حالیہ ECO اجلاس کا موضوع ’’علاقائی خوشحالی کیلئے روابط‘‘ تھا جو پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے تناظر میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا جس کے تحت آئندہ 3 سے 5 سالوں میں ای سی او ممالک کی باہمی تجارت دگنا کرنے اور علاقائی روابط بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس کے اعلامیے میں تجارت، ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبوں سمیت دیگر اہم شعبوں میں تعاون بڑھانے اور بھرپور توجہ دینے پر زور دیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ خطے کے ممالک میں باہمی تعاون بڑھانے کیلئے پاک چین اقتصادی راہداری سے بہتر کوئی اور منصوبہ نہیں ہوسکتا جس کی کامیابی کیلئے وہ پرعزم ہیں۔ اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف کو ای سی او کا چیئرمین منتخب کیا گیا جو پاکستان کیلئے یقینا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ واضح رہے کہ اقتصادی تعاون تنظیم کا قیام 1985ء میں عمل میں لایا گیا تھا اور 5 سالہ طویل مدت کے بعد اسلام آباد میں ہونے والا اقتصادی تعاون تنظیم کا 13 واں اجلاس تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا جو ای سی او کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد کیا گیا۔ توانائی، زراعت اور قدرتی و معدنی وسائل کی دولت سے مالا مال ای سی او ممالک کی آبادی تقریباً 440 ملین ہے جو دنیا کی آبادی کا 16 فیصد ہے۔ ای سی او ممالک کی دنیا سے تجارت ایک کھرب ڈالر سے زائد ہے جبکہ ای سی او ممالک کے مابین باہمی تجارت صرف 2 فیصد ہے جو دنیا کے ساتھ ہونے والی تجارت کا بہت ہی چھوٹا حصہ ہے۔
اقتصادی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران رکن ممالک کے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (ECO-CCI) کے سربراہان کا اجلاس بھی اسلام آباد میں منعقد ہوا جس کی میزبانی کے فرائض فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) نے انجام دیئے۔ اجلاس میں پاکستان، ترکی، ایران اور تمام وسط ایشیائی ریاستوں کی فیڈریشنز و چیمبرز کے صدور اور اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی لیکن افغان فیڈریشن کے صدر اور دیگر عہدیداروں نے بھارتی دبائو پر اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اجلاس میں ECO چیمبرز اور FPCCI کے صدر زبیر طفیل، ای سی او کے سیکرٹری جنرل ایمبسیڈر ہلال ابراہیم آکو، ترک فیڈریشن (TOBB) کے صدر رفعت حصارسی اگلو، ایرانی فیڈریشن (ICCIMA) کے صدر غلام حسین شافی، ایکو چیمبرز کے سیکرٹری جنرل محمد رضا کرباسی، سارک چیمبرز کے نائب صدر افتخار علی ملک اور ECO مرکزی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ بھی شریک تھے۔ FPCCI کے نائب صدر اور صنعت و سرمایہ کاری کمیٹی کے کنوینر کی حیثیت سے میں نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور ’’پاکستان کی صنعت و تجارت‘‘ پریزنٹیشن پیش کی۔ اس موقع پر صنعت و تجارت سے تعلق رکھنے والے بزنس لیڈرز نے ای سی او ممالک کے مابین باہمی تجارت پر تبادلہ خیال کیا اور شرکاء کو پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں پریزنٹیشن دی۔ اجلاس سے وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے بھی خطاب کیا۔ بعد ازاں صدر مملکت ممنون حسین نے ای سی او۔ سی سی آئی چیمبرز کے مندوبین کو ایوان صدر اسلام آباد میں عشایئے پر مدعو کیا اور اپنے خطاب میں ای سی او ممالک کو علاقائی روابط بڑھانے اور ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
ای سی او کا حالیہ اجلاس اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے والے ناکام ہورہے ہیں اور اجلاس کی کامیابی سے دنیا کو یہ واضح پیغام ملا ہے کہ صرف امن سے ہی خطے میں خوشحالی آسکتی ہے۔ خطے کی موجودہ صورتحال میں جب بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث سارک خطے میں اپنی اہمیت و افادیت سے محروم ہوگئی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) کو خطے میں فعال کیا جائے اور رکن ممالک ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھائیں۔ اس سلسلے میں پاکستان، ترکی اور ایران اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جبکہ رکن ممالک کے مابین باہمی رابطہ و تعاون بڑھانے میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے جس کی کامیابی سے پاکستان، دنیا میں انتہائی اہم ملک بن کر ابھرے گا۔ 21 ویں صدی ایشیا کی معیشت کی ترقی کا دور ہے کیونکہ اقتصادی سرگرمیاں مغرب سے مشرق منتقل ہورہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ای سی او نہ صرف خطے کا معاشی مستقبل سنوارنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے بلکہ خطے کو امن، ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ خطے میں تجارت کو فروغ دیا جائے جس کا فائدہ نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ خطے کے ممالک بھی اٹھائیں گے۔ ایسی صورتحال میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پاکستان کیلئے گیم چینجر اور خطے کیلئے فیس چینجر ثابت ہوگا جس کی کامیابی اور تکمیل کیلئے پاکستان پرعزم ہے۔ اسلام آباد میں ای سی او اجلاس کے کامیاب انعقادسے یہ بات ثابت ہوگئی کہ پاکستان دنیا میں تنہا نہیں۔ اب دشمن کو یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ جنگیں صرف تباہی لاتی ہیں لہٰذا اُن کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ بھی امن کا راستہ اپناتے ہوئے خطے کی معاشی ترقی و خوشحالی اور علاقائی ممالک میں روابط بڑھانے کیلئے خلوص نیت سے اپنا کردار ادا کریں تاکہ ہمارا خطہ معاشی طور پر مزید مستحکم و مضبوط ہوسکے۔



.
تازہ ترین