• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے کے کالم میں راقم نے کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ اپنے والد کے دوست کے ریزورٹ پر گئے تھے اور ان کو اپوزیشن کے آگے جواب دہ ہونا پڑا کہ انہوں نےسرکاری عہدہ رکھتے ہوئے دوسروں کا جہاز استعمال کیوں کیا اور وہاں کیوں گئے ۔ اس سلسلے میں مجھے غیر معمولی ای میل ملیں جس میںیہ معلومات فراہم کرنے پر قارئین نے شکریہ کے ساتھ لکھا کہ مزید تفصیل سے کینیڈا کے بارے میں اور بھی لکھوں۔ جیسا کہ میں نے لکھا تھا کہ یہاں گورنمنٹ ملازم چاہے وہ حکومتی کیوں نہ ہو اس کو اپوزیشن کے آگے جوابدہ ہونا پڑتا ہے ۔یہاں بہت سے پاکستانی اپنے علاقے میں کونسلرز بھی منتخب ہوچکے ہیں اور چند ایک وزیر بھی رہ چکے ہیں۔بہت سے علاقوں کے گورنر بھی ایشیائی باشندے ہیں۔ان ایشیائی باشندوں جن میں پاکستانیوں کے علاوہ بھارت، چین اور کوریا سے آئے ہوئے تقریباً 40فیصد افراد اب کینیڈین باشندے بن چکے ہیں ۔انہیں کینیڈین باشندوں کے برابر سہولتیں حاصل ہیں ، پوری مذہبی آزادی ہے ، ہر شہر میں ان کی عبادت گاہیں ہیں جن میں وہ آزادی کے ساتھ عبادت کر سکتے ہیں ۔صرف ساڑھے تین کروڑ کی آبادی والے ملک میں کھربوں ڈالر کی تجارت کرتے ہیں ۔ہر شخص خوشحال ہے ۔اگرچہ مہنگائی بہت ہے ایک کلو مرغی کا گوشت جو سب سے سستا سمجھا جاتا ہے پاکستانی 400روپے کلو اور گائے بکرے کا گوشت 600روپے کلو سبزیاں ، پھل 250روپے سے لے کر 400روپے کلو تک ملتے ہیں۔ایک روٹی کی قیمت 100روپے سے زیادہ ہے۔اس طرح دالیں ، چاول ، مصالحے سب باہر سے آتے ہیں وہ بھی 3چار سو روپے تک ملتی ہیں ۔حکومت انسانوں سے زیادہ جانوروں ، پرندوں، کتے ، بلی کی حفاظت کرنے میںتمام دنیا سے آگے ہے آپ ان کو اگر نقصان پہنچادیں تو یہ بہت بڑا جرم سمجھا جاتا ہے ۔ایک رات ہم کھا نا کھا کر واپس آرہے تھے کہ سڑک پر ایک جنگلی ہرن گاڑی سے ٹکرا کر مرا پڑا تھا ۔اس کے ارد گرد پولیس اور ایمبولینس کھڑی تھیں اور گاڑی والے سے پوچھ گچھ ہو رہی تھی آیا وہ گاڑی جس سے وہ ٹکرا کر مرا تھا کہیں ڈرائیور بے احتیاطی سے تیز تو نہیں چلا رہا تھا ۔وہ ہرن کو کیوں نہیں بچا سکا کیونکہ جگہ جگہ جنگل اور بڑے فارم ہائوس ہیں ۔سڑک پر بورڈ آویزاں ہوتا ہے۔
یہاں سے ہرن رات کو اکثر نکل آتے ہیں لہٰذا یہاں سے آہستہ گزرا جائے ۔جہاں میں نے کینیڈا کے بارے میں اچھائیاں لکھی ہیں وہاں خرابیاں بھی لکھتا چلوں کہ اس ملک میں معاشرتی برائیاں بھی ہیں ۔آزادی اس حد تک ہے کہ عورت عورت سے اور مرد مرد سے شادی کر سکتا ہے اس کو قانونی آزادی ہے حتیٰ کہ مرد اور عورت بغیر شادی کے رہ سکتے ہیں اور بچے بھی پیدا کر سکتے ہیں اس لئے حکومت کی تمام دستاویزات میں بچے کے خانے کے آگے باپ کا نام نہیں ہوتا صرف ماں کا نام لکھا جاتا ہے۔ عورتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے اگر خاوند اس سے مارپیٹ کرے تو پولیس خاوند کو گرفتار کر کے سزا دلواتی ہے آپ اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتے۔ طلاق کی صورت میں مرد کی آدھی جائیدادبیوی کو مل جاتی ہے اگر عورت زیادہ مالدار ہو تو غریب خاوند کو اس کی آدھی جائیداد ملتی ہے ۔بچوں کی تعلیم اور دیگر اخراجات کا ذمہ دار مرد ہوتا ہے جب تک بچہ بالغ نہ ہو ۔اگر خاوند کے پاس دولت نہ ہو تو ایسی صورت میں حکومت اس بچے کو کفالت میں لے لیتی ہے اس طرح تمام بچوں کو آپ ڈانٹ ڈپٹ یا ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے ۔اگر آپ نے بچے کو تھپڑ مار دیا اور اس کا نشان پایا گیا تو اسکول کی ٹیچر فوراً پولیس کو مطلع کر دیتی ہے ۔پولیس بچے سے پوچھ گچھ کر کے معلوم کرتی ہے کہ اس کو ماں نے مارا ہے یا باپ نے جو بھی ملوث ہوگا اس کو گرفتار کر کے سزادی جاتی ہے خواہ بچے نے بدتمیزی ہی کیوں نہ کی ہو یا پھر بچوں کی ہیومن سوسائٹی بچے کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے ۔اگر ماں باپ پولیس کو اور اس سوسائٹی کو لکھ کر معافی مانگیںاور ساتھ یقین دہانی کرائیں کہ وہ آئندہ بچے سے سختی سے پیش نہیں آئیں گے تب جا کر واپس بچے کو حوالے کر دیا جاتا ہے اگر بچہ واپس جانے پر آمادہ نہ ہو تو پھر وہ حکومت اور سوسائٹی کی کفالت میں پلے بڑھے گا۔ہمارے معاشرے میں ماں باپ کا احترام لازمی ہوتا ہے مگر وہاں 18سال بعد جب قانوناً لڑکا لڑکی بالغ ہو جاتے ہیں تو وہ خود مختار بن جاتے ہیں خواہ وہ ماں باپ کے ساتھ رہیں یا جہاں چاہیں جس کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ اپنی مرضی سے وہ جس سے چاہے شادی کر سکتے ہیں آپ ان پر کوئی پابندیاں نہیں لگا سکتے البتہ سال میں ایک دن وہ مدر ڈے اور فادر ڈے ماں باپ کے نام پر مناتے ہیں ان کو پھول یا کارڈ بھیج کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ماں باپ کا فرض ادا کر دیا ۔بہت سے والدین تو اس دن بڑی شدت سے انتظار کرتے ہیں کہ ان کے بچے ان سے ملنے آجائیں گے مگر اب آہستہ آہستہ ملنے ملانے سے بھی وہ کتراتے ہیں وہ بچے خود اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں یا پھر ویک اینڈ پر اگر ان کو فرصت ہو تب وہ جا کر مل لیتے ہیں ایک پاکستانی ڈاکٹر جو 30سال سے ایک بڑےاسپتال میں ملازمت کررہے ہیں انہوں نے بتایا کہ جب یہ بوڑھے والدین اسپتال میں آخری دن گزار رہے ہوتے ہیں تو ان کے بچے اسپتال میں بھی آنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے صرف فون کر کے پوچھتے ہیں کہ یہ زندہ ہیں تو ان کو مایوسی ہوتی ہے اگر وہ مرجائیں تو ان کو جائیدادملنے کی توقع ہو سکے۔
کینیڈین اپنی آمدنی اپنے اوپر ہی خرچ کرنا پسند کرتے ہیں ۔بینک اور سود سے وہ مکان خریدتے ہیں سو دادا کرتے کرتے ان کی ساری عمر گزر جاتی ہے بڑھاپے میں جا کر وہ مکان کے مالک بنتے ہیں ۔کریڈٹ کارڈ پر وہ اپنی تمام ضروریات پوری کرتے ہیں اور وہ قسطیں ادا کر کے اپنی پوری زندگی گزارتے ہیں اگر اس معاشرتی برائی اور قرضوں کا نظام دیکھیں تو ہمارا ملک اس سے بہت بہتر ہے ان کو ہر کام حتیٰ کہ مکان کی صفائی ، کھانا پکانا، برتن صاف کرنا ، کپڑے خود اپنے ہاتھ سے دھونے میں ان کی زندگی گزر جاتی ہے۔ ذاتی ملازم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جب ہم دیارِ غیر میں ہوتے ہیں تو ہم کو اپنا ملک بہت یاد آتا ہے مگر جب اپنے ملک میں ہوتے ہیں تو یہ دیارِ غیر جنت لگتا ہے۔اگر اس پر غور کریں تو یہ ان ممالک کی اچھائیاں جو انہوں نے ہمارے مذہب سے چُرا لیں اور انکی برائیاں ہم نے اپنا لیں ۔آج وہ پوری دنیا میں سرخرو ہیں ہم ان کی برائیاں اپنا کر ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔ کاش ہم سوچیں ۔



.
تازہ ترین