• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظرنامہ،آبی تنازع پر بھارت سےمذاکرات اچھی بات ہے

اسلام آباد(طاہر خلیل) عالمی بینک کی جانب سے پاک بھارت آبی تنازع اور کشن گنگاڈیم پر ثالثی کرنے سے پیچھے ہٹنے کےبعد دونوں ملکوں کے ماہرین آج اسلام آباد میں دوروزہ مذاکرات شروع کررہےہیں۔ پاکستا ن نے مذاکراتی ایجنڈے میں دریائے چناب پر بننے والے تین متنازع منصوبوں مایار ڈیم، لوئر کلنائی ڈیم اورپاکل دل ڈیم کو شامل کیا ہے۔ 1960میں طے ہونےوالے سندھ طاس معاہدے کے بعد دونوںملکوں کے مابین آبی تنازع پر یہ مذاکرات کا113واں دور ہوگا۔ عالمی بنک نے دونوںملکوں کومارچ 2017 تک مہلت دی تھی کہ وہ 1960 میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت باہمی تنازع بات چیت کے ذریعے حل کرلیں تاکہ سندھ طاس معاہدے کی فعالیت برقرار رہ سکے۔ پاکستان  کیلئے یہ معاملہ اس پہلو سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے ابھی چند ہفتے قبل دھمکی دی تھی کہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند سے ترسا دیں گے ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور بھارت کی دوستی جب سے سانجھ کے رشتے میں بدلی ہے بھارت کی طرف سے پاکستان کےخلاف جارحانہ عزائم میں بھی تیزی آتی جارہی ہے اور وہ پاکستان کو دنیا بھر میں اکیلا کرنے کی سوچ رہا ہے۔کون نہیں جانتا کہ دنیا کے سیاسی منظر نامے میں آئندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہی لڑی جائیں گی۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہم نے اس اہم ترین مسئلے کو ’’ بھارت دوستی‘‘کی نذر کرنے کی بجائے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی راہ اپنائی۔ حالانکہ ہمارے سیاستدانوں نے پاکستان کے قدیم ترین آبی ذخیرہ کرنے کے منصوبے کو مصلحت کوشی کے تحت نظر انداز ہی نہیں کیا بلکہ اس پر مکالمہ تو درکنار اس کے حق میں کوئی بات کہنے سننے کے بھی روادار نہیں اوربدستور ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں ۔ پیپلز پارٹی نے تو اپنے دور میں اسے قومی ترقیاتی منصوبوں کی فہرست سے ہی خارج کردیا لیکن افسوسناک عمل یہ ہے کہ قومی معیشت کی بحالی کا نعرہ لگانے والی جماعت نے جو آئندہ برس تک ملک سے اندھیرے دور کرنے کا عزم رکھتی ہے، وہ بھی توانائی اورپانی کے اس بڑے ذخیرے کے منصوبے سے پہلو تہی کرکے بھاری نرخوں پر دیگر وسائل توانائی پر انحصار کررہی ہے جبکہ پوری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ نہ صرف مستقبل میں لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی قلت کا سامنا ہوگا بلکہ کاشتکاری  کیلئے درکار پانی کی دستیابی بھی مشکل ہوجائے گی۔ عالمی اداروں کی رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان کو سخت موسمی حالات، سیلاب اورخشک سالی جیسے مسائل کا سامنا ہے جس سے زراعت اورپانی کے انفراسٹرکچر کو نقصان ہوتا ہے اور ڈیمز کی کمی کی وجہ سے پانی کی وافر مقدار بھی جمع نہیں کی جاسکتی۔ دوسری جانب بھارت نے پاکستان کےخلاف آبی جارحیت شروع کررکھی ہے اورمقبوضہ کشمیر سےپاکستان آنے والے دریائوں کاپانی روکنے کے لئے ڈیمز پر ڈیمز تعمیر کئے جارہےہیں، ہمیں تباہی سے دوچار کرنے کے دیگر اوچھے ہتھکنڈوں کے ساتھ سب سے زیادہ خطرناک آبی جارحیت ہے وہ خود تو پانی ذخیرہ کرنے کی خود کفالت کی منزل تک پہنچ چکا ہے جبکہ ہمارے ہرے بھرے کھیت بنجر بنانے کی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں، یہ کسی ایک سیاسی جماعت کا معاملہ نہیں ، پوری سیاسی قیادت کو آنے والے دنوںمیں پانی کی کمیابی سے ممکنہ بحرانوں کا ادراک کرنا چاہیے اگر بھارتی وزیراعظم ہمیں بوند بوند ترسانے کی دھمکیاں دیتے ہیں تو سیاسی قائدین کوصورت حال کی نزاکت کا احساس کرنا چاہیے جو نہایت تشویشناک ہے۔ 
تازہ ترین