• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر ملک میں مردم شماری کا کام شروع ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ دوسرے بہت سے کاموں کی طرح یہ بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی ہدایت پر ہو رہا ہے، ورنہ حکمرانوں کا تو کوئی ارادہ نہیں تھا کہ یہ اہم کام کیا جائے، کہ جس کی بنیاد پر تمام تر منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ ان سب کے اپنے مفادات ہیں، مردم شماری اُس میں ایک بڑی رکاوٹ رہی ہے۔
حالیہ مردم شماری 19برس بعد ہو رہی ہے۔ ایک مردم شماری، پاکستان کی دوسری، اب سے کوئی 56برس پہلے 1961میں ہوئی تھی۔ میرا پہلا تجربہ تھا، مشاہدہ مردم شماری کے دوران ہو گیا۔ کم ہی لوگ یہ جانتے ہوں کہ اس مردم شماری میں، پہلے مرحلہ سے ہی دھاندلی کی گئی تھی۔ اور اب یہ اعتراف کرنے میں کوئی خطرہ نہیں کہ ہم جیسے شمار کنندگان کو خوب استعمال کیا گیا تھا۔ عام لوگوں کو اتنا شعور نہ تھا کہ احتجاج کرتے، سیاسی جماعتیں اس دھاندلی میں خاصی حد تک شریک رہی تھیں، باقی کام نوکر شاہی نے کیا۔
خرابی خانہ شماری کے مرحلہ سے کی گئی۔ جو رجسٹر شمارکنندگان کو فراہم کئے گئے تھے، مردم شماری کے وقت فارم ان کے مطابق بھرنے کی ہدایت بھی دی گئی تھی۔ ایک گھر کے آگے اگر خانہ شماری کے رجسٹر میں 12افراد لکھے ہوئے تھے، تو شمار کنندہ کو ہدایت کی گئی تھی 12پرچیاں ہی بھری جائیں۔ ہوتا یہ تھا کہ کسی گھر میں، بلکہ اکثر گھروں میں رہنے والوں کی تعداد، رجسٹر میں درج افراد سے کم تھی۔ فرض کریں ایک گھر میں پانچ افراد رہتے تھے تو شمار کنندہ سات پرچیاں خالی چھوڑ دیتا تھا اور یہ پرچیاں بعد میں اپنے گھر پر بیٹھ کر بھری جاتی تھیں۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہوگا جس میں رہنے والوں کی اصل تعداد خانہ شماری کے رجسٹر کے مطابق ہو۔ یوں اُس مردم شماری میں، تقریباً تمام ہی علاقوں میں وہ آبادی درج کی گئی جو اصل میں وہاں نہیں تھی۔
بات یہیں تک محدود نہیں رہی۔ یہ سارا ریکارڈ سورٹنگ سینٹر زمیں لے جایا گیا۔ دوسرے شہروں میں بھی یہی ہوا ہوگا۔ وہاں بہت سارے لوگ تھے جو اس ریکارڈ کو چھانٹنے کے کام پر مامور تھے، یعنی مردوں اور عورتوں کی پرچیاں الگ الگ کرتے تھے۔ اسی طرح عمر کے حساب سے بھی افراد کی تعداد متعلقہ رجسٹر میں درج کی جاتی تھی۔ یہاں پھر وہی منظر دیکھنے میں آیا۔ مختلف کیبن میں لوگ یہ کام کرتے تھے مگر ان کے پاس خانہ شماری سے الگ بھی کچھ دستاویز تھیں، اور ان کے ساتھ ہدایت بھی۔ یہاں بھی نئی پرچیاں بھری جا رہی تھیں۔ نئی پرچیوں کی تعداد اتنی تھی کہ لوگوں کے نام یاد کرنا اور انہیں پرچیوں میں لکھنا خاصا مشکل تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ بچوں کے نام رکھنے کی کتابیں انہیں فراہم کی گئیں اور پرچیاں بھرنے میں ان سے مدد لی گئی۔ ایک ہی کام، یعنی پرچیوں میں نام ہی درج کرنے ہوں تو عام حالت میں بھی چالیس پچاس کے بعد نام یاد نہیں آتے۔ ان کتابوں نے بڑی مدد کی۔ اس سے اگلے مرحلے پر کیا ہوا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے اگلے مرحلوں اور مقامات پر اس میں مزید اضافے کئے گئے ہوں۔ مقصد صاف ظاہر ہے۔ اپنے علاقے کی آبادی میں اضافہ کیا جائے تاکہ وسائل زیادہ مل سکیں۔ جس کا جہاں مفاد تھا، اس نے وہاں ہاتھ دکھایا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا اور اعداد و شمار کے محکمے کا حصہ ہے اور افسوسناک حصہ ہے۔ اب جو مردم شماری ہو رہی ہے، یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں وہ سب کچھ نہیں ہوگا جو اس سے پہلے والی مردم شماریوں میں ہو چکا ہے۔ مگر کیسے؟ کیا سیاسی جماعتوں نے اس طرف توجہ دی ہے، یا صرف ہوائی باتیں کی جا رہی ہیں؟
معاصر اخبار کے کالم نویس منیر احمد بلوچ نے کچھ حقائق جمع کئے ہیں۔ مردم شماری سے پہلے ان کی بات پر غور کرنا چاہئے تھا۔ اور اب بھی کچھ نہیں گیا۔ ذرا توجہ سے دیکھیں وہ کیا کہہ رہے ہیں، اور یہ سب کچھ ریکارڈ پر ہے۔ انہوں نے ایک کالم میں لکھا :’’سابق ہوم سیکرٹری سندھ محمد خان جونیجو کا یہ اعتراف آج بھی سرکاری ریکارڈ پر موجود ہے کہ 1972کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 65لاکھ تھی جسے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے حکم پر کم کرکے 35لاکھ کردیا گیا تھا تاکہ کراچی کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں کم ہوں۔ اس کے نتیجہ میں کراچی کی قومی اسمبلی کی نشستیں 21کے بجائے 13رہ گئیں اور صوبائی اسمبلی کی 45کی بجائے 25نشستیں مختص ہوئیں۔ اگر صحیح مردم شماری ہوتی تو اندرونِ سندھ قومی اسمبلی کی 33کی بجائے 25اور صوبائی سمبلی کی 72کی بجائے 55نشستیں ہوتیں‘‘۔
ایک نظر 1972میں کرائی جانے والی مردم شماری کے نتائج پر ڈالی جائےتو اندازہ ہوتا ہے کہ دھاندلی کیا ہوتی ہے۔ اس میں بدین کی آبادی میں 364فیصد، کندھکوٹ میں 155فیصد، سکرنڈ میں 200فیصد، گھوٹکی میں 177فیصد، دادو میں 148فیصد، ٹھٹھہ میں 70فیصد، ہالہ میں 99فیصد اور ٹنڈو محمد خان کی آبادی میں 72فیصد اضافہ دکھایا گیا۔ جبکہ کراچی کی آبادی65 لاکھ سے کم کرکے 35لاکھ کر دی گئی۔
1981کی مردم شماری میں سکھر ڈویژن کی آبادی 65لاکھ اور کراچی کی آبادی 53لاکھ دکھا کر ایک بار پھر کراچی والوں کو ان جائز حقوق سے محروم کردیا گیا۔ یہ دراصل 1972کی مردم شماری کو بنیاد بنا کر صرف خانہ پری کی گئی تھی۔ اس مردم شماری میں کراچی کی آبادی میں دس سالہ اضافہ 45.18فیصد دکھایا گیا جبکہ گوجرانوالہ میں یہ اضافہ 84.26فیصد اور پشاور میں 103.30 فیصد تھا حالانکہ آبادی، مسلمہ اصولوں کے مطابق، بڑے پیمانے پر دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کو منتقل ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اصول اور پاکستان پلاننگ کمیشن کی رپورٹوں کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں دیہی آبادی میں دس سال میں30 سے 35فیصد اور شہری علاقوں میں ساٹھ سے ستّر فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ 1972کی مردم شماری میں دیہی آبادی میں 364فیصد تک اضافہ دکھایا گیا۔ اس طرح کراچی کو ملازمتوں اور دوسرے وسائل میں اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا۔
اس بار بھی یہ فرض کرلینا کہ مردم شماری بالکل درست ہوگی شاید ایک مفروضہ ہی ثابت ہو۔ مانا کہ فوج کے جوان شمار کنندگان کے ساتھ ہیں، مگر یہ تو ایک حفاظتی اقدام ہے۔ اندازہ نہیں کہ انہیں شمار کنندگان کے کام پر نظر رکھنے کی ہدایت ہے بھی یا نہیں۔ اور پھر ’’کام‘‘ تو کہیں اور کسی اور مقام پر ہوا اور ہوتا رہا، وہاں تو فوجی جوان موجود نہیں ہوں گے کہ وہ تو نوکر شاہی کا کام ہے، اور سیاسی قوتوں کا۔حالیہ مردم شماری پر نظر ڈالیں تو کچھ حقائق تو بہت واضح نظر آتے ہیں۔ شہر کراچی کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں خانہ شماری ابھی تک نہیں ہوئی۔ میرے علاقے گلشنِ اقبال میں بہت سے ایسے مکان ہیں جہاں ابھی تک ’ش‘ کے نمبر ڈالے نہیں گئے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ سوسائٹی کی طرف نکل جائیں تو وہاں بھی بے شمار ایسے مکانات ہیں جنہیں اب تک گنا نہیں گیا۔ اور بھی بہت سے علاقے ہوں گے جہاں مردم شماری کا عملہ اب تک نہیں گیا۔ یہ تو صرف کراچی کا حال ہے، سندھ کے دوسرے شہری علاقوں میں کیا ہو رہا ہے، میڈیا کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اگر اس بار بھی وہی پرانی ڈگر رہی تو سندھ کے شہری علاقے، خصوصاً کراچی اور حیدر آباد ایک بار پھر اپنے جائز حقوق سے محروم رہ جائیں گے۔ اگر آپ ملک کی سلامتی اور اس کی ترقی سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں تو لوگوں کو ان کے جائز حقوق دیں۔ یہ تو شاید ممکن نہیں کہ ماضی میں ان کے جو حقوق غصب کر لئے گئے تھے اور طویل عرصے تک غصب رہے، ان کا اب ازالہ ہو سکے۔ مگر قومی اور صو بائی اسمبلیوں میں ان کا جو جائز حق1972 میں غصب کر لیا گیا تھا اور بعد میں اسی کی بنیاد پر اگلے انتخابات کرائے گئے تھے اس کا کچھ تو ازالہ ہونا چاہئے، اور وہ یہی ہے کہ اب 45برس بعد ہی صحیح، ان کو ان کا جائزحق دے دیا جائے، اسمبلی میں، ملازمتوں میں صحت اور تعلیم کی سہولتوں میں۔



.
تازہ ترین