• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس وقت بھارتی حکومت دہلی میں بنگلہ دیش کے ساتھ بہت سے معاہدے کر رہی تھی ،قرضہ دے رہی تھی، بنگلہ دیش کی وزیر عظم شیخ حسینہ واجد اپنے بھارتی ہم منصب مہندرا داس نریندر مودی کے سامنے بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے ادا کئے گئے بھارتی کردار کی نہ صرف تعریف کر رہی تھیں بلکہ شکریہ ادا کر رہی تھیں۔بھارتی وزیراعظم بھی خوش تھے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ پچاس برس بعد ریل کا رابطہ بحال ہو رہا ہے اپنے میزبانوں سے بہت زیادہ خوش ہو کر حسینہ واجد اگلے دن خود میزبانی روپ میں سامنے آ گئیں انہوں نے بھارتی راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) میں پرناب مکھرجی کیلئے مشہور بنگالی ڈش ’’ہلسہ مچھلی ‘‘ تیار کی۔ جس وقت یہ سب کچھ دہلی میں ہو رہا تھا عین اسی وقت پاکستان کے شہر نوشہرہ میں جمعیت علمائے ہند کا (دوسال قبل) صدسالہ جشن منایا جا رہا تھا واقفانِ حال جانتے ہیں کہ مدرسہ دیوبند کے بانی مولانا محمو الحسن نے 1919ء میں جمعیت علمائے ہند کی بنیاد رکھی تھی اس طرح صدسالہ جشن 2019ء میں بنتا ہے مگر اسے دو سال پہلے اس لئے منایا گیا ہے کہ ’’کل ہو نہ ہو ‘‘ کے باعث جشن منالیا جائے۔ پاکستان سے محبت کرنے والے جانتے ہیں کہ جمعیت علمائے ہند نے ابتدا میں قیام پاکستان کی بہت مخالفت کی تھی بلکہ ان میں سے بعض لوگ اس پاک وطن کو ’’کافرستان‘‘ کے نام سے یاد کیا کرتے تھے انہوں نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بھی کئی غیر مناسب القابات سے یاد کیا تھا۔
اس جشن میں امام کعبہ جس روز مسلمانوں کو اختلافات ختم کرنے کا درس دے رہے تھے ،فرقہ واریت سے منع فرما رہے تھے اسی روز امریکہ، شام پر میزائل برسا رہا تھا کچھ عرب ممالک اور اسرائیل اس کی حمایت کر رہے تھے۔
جمعیت علمائے ہند کے صدسالہ جشن کو کامیاب بنانےکےلئے کئی لوگوں نے کردار ادا کیا۔مگر جس وقت قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والی جماعت جمعیت علمائے ہند کا جشن جاری تھا عین اسی وقت بھارتی فوج کشمیر میں کھلی دہشت گردی کر رہی تھی ،مقبوضہ کشمیر کے شہر بڈگام میں کشمیری نوجوانوں کی لاشیں گر رہی تھیں۔انہی دنوں میں ایک بھارتی سیاست دان بی جے پی کا رہنما سبرامنیم سوامی پاکستان کے خلاف بکواس کر رہا تھا، سبرا منیم سوامی کہتا ہے کہ ’’...ہم پاکستان کے چار ٹکڑے کر دیں گے، پاکستان کا نام ونشان نہیں رہے گا...‘‘ مسٹر سوامی، بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے پاکستان کے ساتھ کئے گئے پانی کے معاہدے کو بھی نہرو کی غلطی قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’...ہم اتنا پانی چھوڑ دیں گے کہ پاکستانی اس میں ڈوب مریں گے ...‘‘ اس کے علاوہ سبرامنیم سوامی کہتا ہے کہ ’’...ہم ایٹمی حملہ کریں گے ...‘‘
ان تمام باتوں پر میاں نواز شریف اور ان کی تجربہ کار ٹیم خاموش ہے۔یہ خاموشی بڑی معنی خیز ہے، وہ تو اس وقت بھی خاموش رہے تھے جب نریندر مودی نے پاکستان توڑنے کا اقرار کیا تھا حالانکہ اس وقت اقوام متحدہ کا رخ کیا جا سکتا تھا، پھر میاں نواز شریف اور ان کی تجربہ کار ٹیم کلبھوشن کے معاملے پر بھی خاموش رہی، ایسا لگتا ہے کہ اس پوری ٹیم کی زبان ’’کلبھوشن‘‘ لفظ ادا نہیں کر سکتی۔
پچھلے ہفتے کچھ سیاسی معاملات پر بھی باتیں ہوئیں، مثلاً قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’...اسلام آباد دھرنے کے دوران نواز شریف استعفیٰ دینے والے تھے، ہم نے روکا، زرداری نے روکا بلکہ زرداری دنیا کو یہ دکھانے رائیونڈ گئے تھے کہ ہم نواز شریف کو وزیر اعظم مانتے ہیں ...‘‘ خیر یہ تعاون تو اب بھی جاری ہے یہ الگ بات کہ زرداری کے تین اہم آدمیوں کو اٹھائے جانے پر پیپلز پارٹی برہم ہے حالانکہ ان تینوں آدمیوں کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں، ان کا تعلق صرف اور صرف آصف علی زرداری سے ہے، آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل ’’جنگ‘‘ کے انہی صفحات پر لکھا تھا کہ لاڑکانہ میں ڈھائی سو ایکڑ زمین اور دو پٹرول پمپوں کا قصہ چھڑنے والا ہے، یہ زمین بھٹو خاندان کی ہے مگر اب کوئی اور اس پہ قابض ہے، اسی طرح کے کچھ اور معاملات ہیں اس سب کے باوجود ’’مک مکا‘‘ کی سیاست پر عمل جاری ہے۔ایان علی، ڈاکٹر عاصم اور شرجیل انعام میمن اس تعاون کے اہم سلسلے ہیں، یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پچھلے مہینے سندھ سے تعلق رکھنے والی ایک روحانی شخصیت نے وزیر اعظم ہائوس کا دورہ کیا تھا، اس شخصیت کا آصف علی زرداری سے میل جول ہے جس روز یہ روحانی شخصیت اسلام آباد آئی اس نے چھوٹی کالی داڑھی کے ساتھ سفید پگڑی اور کالی واسکٹ پہن رکھی تھی، اس واسٹک کے بٹن بند تھے اس شخصیت کو ایک اہم حکومتی رہنما اپنی کرسی کے قریب لے جا کر کہنے لگے کہ ’’....اس کرسی پر دم کریں ‘‘ پھر اس روحانی شخصیت کو وہ اپنے بیڈروم میں لے گئے اور کہنے لگے ...یہاں بھی دم کریں ...‘‘ ان دموں کے بعد اس روحانی شخصیت کے ساتھ ایک حکومتی وزیر نے پنجاب ہائوس اسلام آباد میں ملاقات کی، اس ملاقات میں حکومتی وزیر نے انگریزی سوٹ پہن رکھا تھا، ان کے ساتھ ایک اور شخصیت تھی اس شخص کے سوٹ کا رنگ ہلکا جبکہ وزیر کے سوٹ کا رنگ بہت گہرا تھا، انہوں نے لائنوںوالی نکٹائی بھی لگا رکھی تھی۔
پچھلے ہفتے میں نے ایک نجی ٹی وی پر سنا کہ اسلام آباد میں کچھ بنگالی جادوگر آئے ہوئے ہیں مجھے تو خیر اس بات کا نہیں پتہ البتہ مجھے یہ ضرور پتہ ہے کہ 27مارچ کی شام ڈھاکہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک پاکستانی شخصیت نے کچھ جادوگروں کے ساتھ کھانا کھایا تھا، کھانے کے دوران پاکستانی شخصیت نے جادوگروں کو سات پاکستانی شخصیات کے نام دیئے کہ ان پر جادو کیا جائے، مجھے ان تمام شخصیات کے ناموں کا پتہ ہے مگر میں یہاں نہیں لکھ رہا، ویسے مجھے ایسی ضعیف الاعتقادی پر افسوس ضرور ہوا کیونکہ ہمارا مذہب جادو کی نفی کرتا ہے بلکہ قرآن پاک اور احادیث میں اس کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔
چلو اب آخر میں تجربہ کار ٹیم کی کچھ باتیں کر لیں، تجربہ کار ٹیم نے ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لئے، اب پرانے قرضے اتارنے کیلئے مزید نئے قرضے لئے جا رہے ہیں۔تجربہ کار ٹیم کے ہوتے ہوئے پی آئی اے اور اسٹیل مل تنزلی کا شکار ہوئے، ریلوے کو حادثات کا زیادہ تحفہ بھی تجربہ کار ٹیم کے ہوتے ہوئے ملا۔سیکورٹی بریچ بھی اسی ٹیم کے باعث ہوئی ،تجربہ کار ٹیم میں ایک دوسرے کے مخالف وزیروں کی حالت دیکھئے۔خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ گرمی بڑھنے سے لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ہے۔اب یہ تجربہ کار ٹیم بتا رہی ہے کہ ’’...گرمیوں میں شارٹ فال پانچ ہزار میگاواٹ ہے، رمضان المبارک میں بھی لوڈشیڈنگ ہوگی، شیڈولڈ کے علاوہ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے...‘‘ تجربہ کار ٹیم کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اپنے حلقے کے لوگوں کے سامنے اقرار کرتے ہیں کہ ’’...اچھے کاموں میں رکاوٹیں ہیں، رشوت اور سفارش پر ناجائز کام فوری ہو جاتے ہیں، حکومت کرنا آسان نہیں ...‘‘ پتہ نہیں چوہدری صاحب کو اس مشکل کی دعوت کس نے دی تھی ، ہیرا پھیریاں لکھنے کیلئے دوچار کتابیں لکھنا پڑیں گی فی الحال چولستان کے بارے میں، جہاں خشک سالی اور پھر واٹر سپلائی بند ہونے کے باعث جانور مرنے لگے ہیں ، وہاں سے نقل مکانی شروع ہو گئی ہے۔ایسے دکھوں پر مجھے سرور ارمان کا شعر یاد آ جاتا ہے کہ ؎
بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن
تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی



.
تازہ ترین