• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی منفرد سیاسی جماعت اور مولانا فضل الرحمان منفرد سیاستدان ہیں۔ ان کی جماعت صرف دیوبندی علمااور طلبا کی جماعت ہے لیکن مولانا چونکہ آگ اور پانی کو جمع کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں، اس لئے اکرم خان درانی جیسے خوانین اور طلحہ محمود جیسی کاروباری شخصیات کو بھی اس کا حصہ بناچکے ہیں۔ اب تو بشپ آف پاکستان بھی ان کی جماعت کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ مولانا ہی کا کمال ہے کہ وہ شیر اور بلی کو ایک گھاٹ پر پانی پلاسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک طرف آصف علی زرداری ان کو اپنا قریبی دوست سمجھتے ہیں تو دوسری طرف میاں نوازشریف ان پر مہربان ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن بہر حال پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمان گروپ) نے علمائے دیوبند کی گدی پر قبضہ جمالیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کی ذہانت اور سیاست میں ان کی مہارت کے تو ان کے نمبرون مخالف مولانا سمیع الحق بھی قائل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مولانا عبداللہ درخواستی اور مولانا عبدالحق جیسے علماکی موجودگی میں انہوں نے دیوبندی فکر کی غالب اکثریت کو اپنی امامت میں مجتمع کرلیا۔ جے یو آئی اور مولانا فضل الرحمان کی سیاست کا ایک رخ تو وہ ہے جس کا ان کے معترضین تذکرہ کرتے ہیں اور بڑی حد تک اس اعتراض میں وزن بھی ہے۔ یعنی یہ کہ اسی جماعت کے اکابرین کی تقاریر اور لٹریچر کو مذہبی انتہاپسندوں اور فرقہ پرستوں نے استعمال کیا اور کررہے ہیں۔ یا یہ کہ سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جیش محمد اور حرکت الانصار جیسی تنظیموں نے جے یو آئی ہی کے بطن سے جنم لیا۔ یا یہ کہ مولانا کی سیاست مصلحت اور اقتدار کا دوسرا نام قرار پائی ہے اور پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ تک ہر جماعت کے اقتدار کے دسترخوان اقتدارسے وہ مستفید ہوئے اور ہورہے ہیں۔ یا یہ کہ کسی زمانے میں انہوں نے افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلق کو بڑھا چڑھا کر پاکستان میں اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے استعمال کیا اور کسی زمانے میں پاکستانی عسکریت پسندوں سے متعلق نرم رویہ رکھ کر مخالفین کو دھمکاتے رہے لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ مولانا اور ان کی جماعت عسکریت پسندی اور فرقہ واریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی رہی۔ جس بندے نے فرقہ پرست یا عسکریت پسند بن کر بندوق کا راستہ اپنایا، مولانا نے ان کو اپنی صفوں سے نکال دیا۔ وہ اگر اپنے پیروکاروں کو سیاست اور جمہوریت سے وابستہ نہ رکھتے تو ان لاکھوں دیوبندیوں کا عسکریت پسندی اور فرقہ پرستی کے میدان میں کودنے کا خطرہ موجود تھا۔ اسی طرح انہوں نے مدارس کے طلبہ اور علما کو جمہوریت اور سیاست کے جوابی بیانیے کے ذریعے عسکریت پسندوں کے بیانیے کو اپنانے سے روکا اور یہی وجہ ہے کہ عسکریت پسندوں نے ان کو اپنی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھ کر رستے سے ہٹانے کے لئے تین مرتبہ خودکش حملوں کا نشانہ بنایا۔ مولانا حسن جان سے لے کر مولانا معراج الدین تک ان کی جماعت کے درجنوں رہنمائوں کو قتل کیا گیا۔ تصویر کے اس ر خ کو مدنظر رکھ کر جب مورخ تاریخ لکھے گا تو عسکریت پسندی اور انتہاپسندی کے مقابلے میں مولانا کے کردار کو لبرل سیاستدانوں سے شاید زیادہ اہم قرار دے۔ متحدہ مجلس عمل کا مجموعی کردار میری دانست میں کبھی لائق تحسین نہیں رہا اور میری دانست میں یہ اتحاد جنرل پرویز مشرف کے ڈبل گیم میں ایک مہرے کے طور پر تخلیق اور استعمال ہوا لیکن ا س کا یہ پہلو بہر حال خوش آئند تھا کہ اس فورم کے تحت پہلی مرتبہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے دیوبندیوں کو اہل تشیع، بریلوی اور جماعت اسلامی کے علما کے ساتھ بٹھا دیا اور پھر پانچ سال تک انہیںساتھ چلاتے رہے جس کی وجہ سے اس فرقہ وارانہ اور تکفیری لٹریچر کا مضر اثر بڑی حد تک کم ہوگیا جو ماضی میں ان سب مکاتب فکر کے علما نے ایک دوسرے کے خلاف تخلیق کیا تھا۔ دیگر جماعتوں کی طرح جے یو آئی بھی گزشتہ چند سالوں میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے مدافعانہ پوزیشن میں چلی گئی تھی لیکن اب جوں جوں وہ مسئلہ قابو میں آرہا ہے یہ جماعتیں دوبارہ اپنی صف بندی میں لگ گئی ہیں۔یہ امر خوش آئند ہے کہ مذہبی جماعتیں اور بالخصوص جے یو آئی انتہاپسندی اور فرقہ واریت سے اپنا رہا سہا ناطہ توڑ رہی ہیں بلکہ مختلف اقدامات سے اپنا معتدل اور لبرل چہرہ سامنے لانے کی کوشش کررہی ہیں جو کہ ملک کے مستقبل کے لئے نہایت خوش آئند ہے۔ اسی تسلسل میں جے یو آئی نے نوشہرہ کے اضاخیل کے وسیع و عریض میدانوں میں جمعیت علمائے ہند کے قیام کے سو سال پورے ہونے کے سلسلے میں تین روزہ عالمی اجتماع کا انعقاد کیا اور حقیقت یہ ہے کہ یہ قوت کا ایک بھرپور مظاہرہ تھاجس میں لاکھوں کی تعداد میں ملک بھر سے لوگ شریک ہوئے۔ یوں تو کئی حوالوں سے یہ اجتماع اپنی مثال آپ تھا لیکن مجھے اس کا سب سے تابناک پہلو یہ لگا کہ اس میں اقلیتوں کو نہ صرف بھرپور عزت و تکریم سے نوازا گیا بلکہ وہ عیسائی رہنما جو کچھ عرصہ قبل جے یو آئی میں شامل ہوئے تھے، انہیں خطابات کا موقع بھی دیا گیا۔ پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں کچھ عرصہ سے پرو سعودی (Pro Saudi) اور پرو ایران (Pro Iran) کی ایک خطرناک تقسیم کا شکار ہورہی ہیں اور مجھے خدشہ تھا کہ جے یو ائی کے اس اجتماع میں امام کعبہ اور سعودی وزیر کی شرکت سے کہیں یہ تفریق مزید گہری نہ ہوجائے لیکن اجتماع میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وفد کو موجود دیکھ کر میں مولانا کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔ سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ انصار الامۃ کے مولانافضل الرحمان خلیل اسٹیج پر نظر آئے وہاں دوسری طرف اہل تشیع کی نمائندگی کرتے ہوئے علامہ عارف حسین واحدی اپنے وفدکے ہمراہ موجود رہے۔ میری تو خوشی کی انتہا نہ رہی جب فقہ حنفی پر عمل پیرا دیوبندیوں کے علما کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی تقریر میں یہ اعلان کیا کہ ان کی جماعت صرف سنیوں کی نہیں بلکہ ہر فقہ اور مسلک سے تعلق رکھنے والے تمام پاکستانیوں کی جماعت ہے اور جب مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اہل تشیع ان کی جماعت کے نہ صرف رکن بلکہ رہنما بھی بن سکتے ہیں۔ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں سلفی اور دیوبندی ایک دوسرے کے ایمان اور عقیدے کے بارے میں سوالات اٹھاتے رہے اور پاکستان میں وہابی کو گالی کا ہم معنیٰ بنا دیا گیا تھا لیکن دیوبندیوں کے اس اجتماع میں سب سے زیادہ عقیدت اور محبت کا اظہار سلفی امام کعبہ سے متعلق دیکھنے کو ملا۔
جہاں ایک طرف جمعیت علمائے ہند کے درجنوں رہنما اسٹیج پر موجود تھے، وہاں دوسری طرف بنگلہ دیش، امریکہ اور برطانیہ سے بھی مسلمانوں کے نمائندے بڑی تعداد میں تشریف لائے تھے۔ جہاں چینی سفارت کار نظر آئے تو مغربی ممالک کے سفارتکار بھی مدعو تھے۔ محمود خان اچکزئی جیسے سیاسی مخالف کو نہ صرف دعوت دی گئی بلکہ انہیں خطاب کا موقع بھی دیا گیا۔ عموماً جب اس طرح کے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں تو وہاں سیاسی اور نظریاتی مخالفین کو صرف اپنی قوت سے مرعوب کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے لیکن اپنے کارکنوں کے سامنے انہیں خطاب کا موقع نہیں دیا جاتا لیکن مولانا کی خوداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ اس اجتماع سے انہوں نے رضاربانی اور خورشید شاہ کو بھی خطاب کا موقع دیا جبکہ راجہ ظفرالحق اورآفتاب شیرپائو بھی ان کے کارکنوں سے مخاطب ہوئے۔ تاہم یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جہاں سب کے بارے میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا گیا، وہاں ایک دیوبندی رہنما مولانا سمیع الحق اور خیبرپختونخوا کے حکمران عمران خان کو مدعو نہیں کیا گیا۔ میں نے مولانا فضل الرحمان سے ان دونوں سے اس امتیازی سلوک کی وجہ بھی پوچھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ وجہ وہ ایک ہفتہ بعد بتائیں گے۔ بہر حال وجہ جو بھی ہو لیکن اگر اس اسٹیج پر دوسروں کے ساتھ ساتھ مولانا سمیع الحق اور عمران خان بھی نظر آتے تو قومی یکجہتی کا یہ مظاہرہ مزید شاندار بن جاتا۔ مولاناکو ابھی آگے بہت کام کرنا ہوگا۔ پاکستان میں مسٹر اور ملا کی سو چ کی خلیج بہت وسیع ہوگئی ہے۔ اس خلیج کو پاٹنے کے لئے مولانا اور دیگر دینی رہنمائوں کو بہت کچھ کرنا ہوگا اور انہیں سوچ اور عمل،دونوں کے لحاظ سے بڑی قربانیاں دینی ہوں گی۔ مذہب کو سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی وجہ سے پاکستان میں انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کی جڑیں بہت گہری ہوچکی ہیں اور انہیں اکھاڑ پھینکنے کے لئے ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں فقہ اور مسلک کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے قیام کی روش اور ایران و برادر عرب ملک کی پراکسی وار کی وجہ سے پاکستان میں فرقہ واریت کے عفریت کاجن بھی قابو سے باہر ہوگیا ہے اور اس جن کو محض اچھی تقاریر اور چند کانفرنسز سے قابو نہیں کیا جاسکتا، اس کے لئے ابھی مولانا فضل الرحمان اور دیگر مذہبی قائدین کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔ اگر تو یہ لوگ اسلام اور پاکستان کی خاطر اپنی ذات اور جماعت کے حصاروں سے نکل سکے تو یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے، نہیں تو پرامن پاکستان بنانے اور جے یو آئی جیسی مذہبی جماعتوں کو تمام پاکستانیوں کی جماعتیں بنانے کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔



.
تازہ ترین