• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گائوںدیہاتوںمیںیہ بات مشہور ہے کہ کسان ، کاشتکاریا زمیندار کتنے بھی مشکل مالی حالات میںہوںوہ اپنی زمین نہیںبیجتے بعض اوقات ان کسانوں ، کاشتکاروںاور زمینداروں کی سہل پسند اولادیں اس کےبرعکس یہ زمینیںبیچ بھی دیتے ہیںیاکچھ لوگ اسی سوچ کےبرعکس دلائل بھی دیتے ہوںگے لیکن کھرے،سُچےاور محنتی کا شتکاراپنی زمین کو نہیںبیچتے اورہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جو مشکل حالات میں اپنی زمین کو نہیں بیچتے وہ زمین کچھ عرصہ بعد ان سے وفا ضرور کرتی ہے اور ان کےلیے سونا اگلتی ہے۔سہل پسند اولا د کی طرح ہماری حکومتوں نے بھی اپنےاثاثےبیچنا شروع کر دیے ہیں اور مختلف عمارتوںاور شاہرائوںکےبارےمیںیہ بات سننے میںآ رہی ہے کہ حکومت نے انہیں بیچ دیاہے ۔
میںگزشتہ کئی سالوںسے مختلف اخبارات میںیہ پڑھتاآرہاہوںکہ اسلام آبادکےبڑےپوش اور مہنگے سیکٹر ایف سکس کے ایک بڑی تجارتی مرکز کے ساتھ ایک سرکاری عمارت کو کچھ سال قبل اونےپونے داموں بیچ دیاگیا تھا یہ عمارت ایک سرکاری ادارے نیشنل فلم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن کی تھی جسے نیف ڈیک کہہ کر پکارتےتھے یہ اداروہ نہ صرف اپنے اخراجات خود پورے کرتا تھا بلکہ ملک میں فلم کی ترقی کےلیےمختلف اقدامات کرتا ، فلم بنانے میں استعمال ہونے والا را میٹریل اور غیر ملکی فلمیں امپورٹ کرنےکے علاوہ اس ادارے نے چند فلمیں بھی بنا ئی تھیں۔ نیف ڈیک کے ادارے کی عمارت فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ تھی جو اب ایک ڈھانچے کی شکل اختیار کر چکی ہے کئی کنال پر مشتمل اس جگہ پر بنائی گئی اس عمار ت میں دو جدید سینمائوں کے علاوہ دفاتر کےلیے وسیع عمارت بھی موجود ہے لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوںگے کہ نیف ڈیک کی اس عمارت کو28کروڑ اور ایک لاکھ روپے کے عوض نیلا م کردیا گیا۔ بلیو ایریاکے سامنے اور ایک بڑے تجارتی پلازہ سے متصل یہ بلڈنگ دن دبدن کھنڈر کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ ایک صحافی جسکے پاس اس عمارت کے ضمن میں کافی معلومات بھی ہیںجب میں نے پوچھا تو اس نے بتا یا کہ خریدار کی یہ کوشش ہے کہ اس عمارت کو گرا کر اس پر ایک بڑا عا لی شان تجارتی و رہائشی پلازہ بنا دیا جائے لیکن اسکےلیے سی ڈی اے کی ملی بھگت اور معا و نت کی ضرورت ہے اور وہ اسکےلیے کوشاں ہے اور سی ڈی اے حکام بھی خریدار کو یہ نوٹس جاری نہیں کررہے یا باور کر انے میں اپنا کردار ادا نہیںکر رہے کہ اس عمارت کو مخددش کرنے کی بجائے اسکی حالت کو بہتر بنا یا جائے اور اسلام آبادکے ایک پوش علاقےمیں جو یہ عمارت ایک دھبہ کی صورت اختیار کر رہی ہے اسکو نہ صرف قابل استعمال بنایا جائے بلکہ اس میں شامل دو عدد جدید سینمائوں کو قابل استعمال بنا کر انہیں عوام کو تفریح کےلیے کھولا جائے ۔مجھے معلوم ہواہے کہ اپنے اخراجات خودپورے کرنےوالا یہ ادارہ ہر سال نیشنل فلم ایوارڈ ز منعقد کر تا تھا بلکہ پرائیویٹ اداروں کے ساتھ ملکر ایوارڈز کی تقریب کے ٹی وی اور کمرشل رائٹس بیچ کر اچھی بھلی آمدنی حاصل کرتا تھا ،پھر ان دونوں سینمائوں میں فلموں کی نمائش کےلیے پرائیویٹ پارٹیاں انہیں کرائے پر حاصل کرتی تھیں اور ماہانہ لاکھوں روپے بطور کرایہ دیا کرتی تھیں ،اس طرح خوبصورت ہالز کو صبح کے سیشن میں مختلف تعلیمی اور دیگر ادارے اپنی اپنی تقریبات کےلیے کرائے پر حاصل کرکے انہیں استعمال کیا کرتے تھے جبکہ اس عمارت کا ایک حصہ ایک قومی ادارےنے کرائے پر حاصل کر رکھا تھا اور ماہانہ لاکھوں روپے کرایہ بھی حاصل ہوتا تھا اسی طرح شاید آنے والے وقت میں پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس پی این سی اے اور لوک ورثہ کے اداروں کو بھی اونےپونےداموںبیچ کر ثقافت کی ترویج کے ان اداروںکو بھی تباہ و برباد کردیا جائےاورمجھے یہ تو معلوم ہے کہ لو ک ورثہ جس میں ان دونوں بھی لوک میلہ سجا ہواہے اور جڑواں شہروں کے علاوہ آس پاس کے قریبی علاقوں کے شہری جو اس سے لطف اندوز ہ ہونے بڑی تعداد میںآتےہیں اور لوک فنکار کے فن کو زندہ رکھنےکےلیے بھی یہ میلہ بڑا مددگار ثابت ہوتاہے اسکاکچھ حصہ بھی ایک ریستوران اور ایک پرائیویٹ ادارے کو کرایہ پر دے رکھا ہے اور اسکے گراں قدر بقایا جات اس پارٹی کے ذمہ واجب الادا ہیں لیکن سب خاموش ہیں سرکاری اثاثوں کا لوٹ کا مال سمجھ کر کھاتے جا رہے ہیں کوئی ہے جو ان کا احتساب کرے ۔


.
تازہ ترین