• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رزا غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا....جو چیرا تو اک قطرہ خوں نکلا۔ بہت شور تھا کہ پوری قوم انتظار کی سولی پر لٹکی ہوئی ہے۔ قوم میڈیا کے بخار سے اگر شوقیہ لٹکتی ہے تو اس پر کیا کہا جا سکتا ہے۔ کیا اب درویش یہ پوچھ سکتا ہے کہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد بھی قوم انتظار کی سولی پر کیا ویسی ہی لٹکی ہوئی نہیں ہے؟ ہمارا مفت مشورہ یہ ہے کہ یہ لٹک وٹک چھوڑ دی جائے اور جس کا جو کام ہے وہ اسے انہماک سے سر انجام دے۔ جب قوم کا ہر فرد اور ہر ادارہ دوسروں کو سنوارنے یا مداخلت بیجا کرنے کی بجائے اپنے آپ کو سنوارنے کی فکر کرے گا تو قوم خود ہی سنور جائے گی بصورتِ دیگر پاناما کا ایشو ختم ہو جائے گا تو کوئی دوسرا اس سے بھی بدتر ایشو میڈیا کے ذریعے قوم کو کسی نئے بخار میں مبتلا کر دے گا۔ 70سال تو ہم نے کچھ اسی نوع کے ادھیڑ بن میں گزار دئیے ہیں۔ ان سات دہائیوں کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو بیشتر مواقع پر ہمیں ایشوز کی بجائے نان ایشوز ہی چھائے ہوئے دکھائی دیں گے جن کے متعلق وقت سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے عاری لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ قوم کی حیات و ممات انہی نان ایشوز کے ساتھ جڑی ہوئی ہے لیکن آج کا مورخ پوری سچائی سے یہ لکھ سکتا ہے کہ وہ سب نان سینس کے سوا کچھ نہ تھے۔
آج بظاہر پوری اپوزیشن اس مسئلے پر متفق دکھائی دے رہی ہے کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں ہمارا سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا نواز شریف کے مستعفی ہونے سے وطنِ عزیز کے مسائل حل ہو جائیں گے یا مزید بڑھ جائیں گے؟ کیا سیاسی بدنظمی اپنی انتہاؤں کو نہیں پہنچ جائے گی؟ کیا یہ بے اصولی مزید نئی بے اصولیوں کی بنیاد نہیں بنے گی؟ کیا اس کے بعد نواز شریف کے حمایتی خاموشی سے کہیں دبک کر بیٹھ جائیں گے؟ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ آنے سے قبل کیا یہ شور ڈالنے والے تمام سیاستدان بشمول سابق کھلاڑی یک جان و باجماعت یہ اعلانات نہیں فرما رہے تھے کہ سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آئے گا ہم سب بلا چوں چرا اُسے تسلیم کریں گے؟ آج اخلاقیات اخلاقیات کی رٹ لگانے والے بتائیں کہ اُن کی اپنی جھولی میں اعلیٰ اخلاقیات کے کون کون سے پھول ہیں؟ انہیں 2013ء کا وہ الیکشن تو دھاندلی کا شاہکار دکھائی دیتا ہے جس کی اجتماعی یا مجموعی شفافیت پر سپریم کورٹ بھی مہر تصدیق ثبت کر چکی ہے جبکہ پرویز مشرف کا نام نہاد ریفرنڈم شفافیت کی معراج دکھائی دیتا ہے جس میں فرشتوں نے ووٹ دئیے تھے اور ماورائی طاقتوں نے اُسے ڈنڈے کے زور سے جتوایا تھا۔ جس کی بیس سالہ چھلانگیں سیاسی لبادے میں عسکریت و آمریت کا دم چھلہ اور کٹھ پتلی بنے گزری ہیں۔ جو وزیراعظم کو کامیابی کی مبارکباد دینے کے بعد پورا سال گزار دیتا ہے اور پھر یکایک جونہی بالائی اشارہ آتا ہے کہ ہم ایک پیج پر نہیں ہیں لہٰذا دھاندلی کا کھیل شروع کرتے ہوئے ہلہ گلہ دکھاؤ تو منافرتوں کا طوفان اٹھاتے ہوئے اپنے حمایتیوں کو غیبی امداد کی امید دلاتا ہے کہ بس امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے۔ یہ منہ اور اعلیٰ اخلاقیات بھری مسور کی دال۔ جو چن چن کے کرپٹ لوگوں کو ٹکٹ بانٹتا ہے لیکن خوشخبری یہ سناتا ہے کہ اخلاقی انقلاب آرہا ہے، اس بیچارے سیاست کے اناڑی کی بات کیا کرنا وہ جو منجھا ہوا سیاستدان ہے اس کی اخلاقیات اور دیانت داری تو درجۂ کمال پر ہے۔ سارے جہاں میں دھوم ہمارے ’’زرو مال‘‘ کی ہے۔ آج وہ فرما رہے ہیں کہ گلی گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے کیا اس سے بڑا مذاق کوئی ہو سکتا ہے؟ کم ازکم ہمارے قلم میں تو ایسی تاب نہیں ہے۔
خدا کے بندو آپ اپنی سیاسی لڑائی قانون کی مطابقت میں قانونی و آئینی اداروں میں ضرور لڑو۔ آپ بڑے چاؤ کے ساتھ سپریم کورٹ گئے تھے تو پھر تلملاتے ہوئے شتابی کیوں دکھا رہے ہو، سپریم کورٹ نے جو فیصلہ کیا ہے اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دو۔ اگر فیصلہ اختلافی ہے تو کیا ہوا کیا دنیا بھر کی صدیوں پر محیط عدالتی تاریخ آپ کے سامنے نہیں ہے کیا اختلافی فیصلوں میں میجارٹی کا حکم Prevailنہیں کرتا ہے؟ اگر اس نے JITبنانے کا کہا ہے تو صبر اور اعتماد کرو۔ اگر آپ لوگوں کو شک ہے کہ JITنواز شریف کی حمایت میں چلی جائے گی تو اس میں نواز شریف کا قصور کیا ہے؟ JITنواز شریف نے تو نہیں بنوائی۔ جب روزِ اول وزیراعظم نے آپ کو ایسے کمیشن کی پیشکش کی تھی تو آپ لوگوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا حالانکہ آج خود عدالت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس حوالے سے وزیراعظم کی پیشکش درست تھی۔ اگر آپ کو عدالتی فیصلے کا یہ حصہ اتنا برا لگ رہا ہے تو پھر مٹھائیاں کس بات کی بانٹ رہے ہو؟ ن لیگ کی مٹھائیاں تو قابل فہم ہیں یہ بیچارے تو عدالتی موڈ سے اتنے ڈرے اور سہمے ہوئے تھے کہ مبادا وزیراعظم کو تین ماہ کے لئے معطل نہ کر دیا جائے۔ جو نہیں ہوا اس لئے ان کی خوشی تو قابل فہم ہے۔ آپ بتائیں آپ کو خوشی کس بات کی ہے؟ یہ کہ دو ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے مزید یہ خوشی ہے کہ نواز شریف کو سرخرو نہیں کیا گیا ہے بلکہ JITمیں پیشی کا حکم دیا گیا ہے۔ بہت اچھی بات ہے ان دونوں باتوں پر آپ لوگ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں تو غصہ تھوک دیں، عدالت پر اعتماد کرتے ہوئے غیر قانونی مطالبات ختم کردیں آخر جان کا ہے کو نکلے جا رہی ہے۔ جسٹس (ر) شائق عثمانی صاحب جو منجھے ہوئے قانون دان ہیں، نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ 3/184 کے تحت وزیراعظم کو نااہل قرار نہیں دے سکتی یہی بات جسٹس اعجاز افضل نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہی ہے۔ جج جب کوئی فیصلہ کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ قانون کے مطابق ہے یا نہیں ہے؟ آرٹیکل 3/184سپریم کورٹ کا ایسا اختیار ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ اگر تین جج نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ دیتے تو یقیناً تاریخ رقم ہو جاتی اگر ایسے ہو جاتا تو ہر نئے وزیراعظم کے خلاف اسی بنیاد پر پٹیشن دائر ہو جاتی اور یہ کافی متنازع صورتحال ہوتی‘‘۔ ہماری رائے میں یہ کئی خرابیوں کے لئے نظیر ٹھہرتی۔ یہاں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اب اگر آپ دو اسمبلیوں سے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کرواتے ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ ن نہ صرف پنجاب اور بلوچستان کی اسمبلیوں سے بلکہ قومی اسمبلی سے بھی بھاری مینڈیٹ کے ساتھ وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر کروڑوں عوام کسی کو چنتے ہیں، فارغ کرنے کا حق بھی کیا انہی کو حاصل نہیں ہونا چاہئے؟
بہرحال اس فیصلے میں یہ امر خوش کن ہے کہ یہ ایک ایسا انوکھا اور دلچسپ فیصلہ ہے جس پر مدعی اور مدعاعلیہ دونوں نے خوشیاں مناتے ہوئے مٹھائیاں بانٹی ہیں۔ اہل صحافت کے لئے بھی اپنی دکانیں چمکانے کا خاصا سامان موجود ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اگلے معاملات عدالتی ہدایات کے مطابق چلنے دیے جائیں۔ کل کو اگر JITنواز شریف کے حق میں جاتی ہے اور سپریم کورٹ بھی اس کی مطابقت میں آخری فیصلہ صادر کر دیتی ہے تو بشمول سابق کھلاڑی سب کو احترام اور کھلے دل کے ساتھ اسے تسلیم کرنا چاہئے بصورت دیگر اگر سپریم کورٹ کا آخری فیصلہ وزیراعظم کے خلاف آتا ہے تو انہیں مستعفی ہو کر اپنی پارٹی کو نیا پارلیمانی قائد منتخب کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ اگر وہ چاہیں تو اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے آئین کے مطابق نئے عوامی مینڈیٹ کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں اسٹریٹ پاور کے مسل دکھانے کی بجائے آئین و قانون کی راہ اختیار کرنے میں ہی فلاح ہے۔



.
تازہ ترین