• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی طرف سے پھر تحریک کا اعلان، وقت کم اور مقابلہ سخت ہے

لاہور (تجزیہ / پرویز بشیر ) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اس مرتبہ وزیراعظم نواز شریف کو ہٹانے کے لئے 2014ء اور 2016ء کی نسبت قدرے مختلف اور کافی ناسازگار ماحول ملے گا۔ یاد رہے کہ وہ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ لے کر ناکام احتجاجی تحاریک چلا چکے ہیں تاہم اس سے پہلے ان کے پاس بہتر دلائل، موسم اور حالات تھے۔ اب ان کے پاس وقت کی بھی کمی ہے جبکہ دوسری جانب وزیراعظم نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) احتجاجی تحریک کو ناکام بنانے میں بہتر پوزیشن میں ہے۔ 2014ء میں عمران خان کے ساتھ طاہرالقادری تھے جن کے کارکنوں کے ساتھ ماڈل ٹائون کا المناک سانحہ رونما ہو چکا تھا اور ان کا جوش اور غیظ و غضب فطری اور ردعمل قدرتی تھا۔ لانگ مارچ کو اسلام آباد میں روکنے کیلئے حکومت طاقت کے استعمال میں بے بس تھی۔ کہا جا رہا تھا کہ بس تحریک کو دو چار لاشوں کی ضرورت ہے۔ حکومت سانحہ ماڈل ٹائون کی وجہ سے دفاعی پوزیشن میں تھی۔ عمران خان جو کہ تھرڈ امپائر کی بات کر رہے تھے حکومت خود اس دعویٰ کے حوالے سے خائف اور مخمصہ میں تھی۔ بعینہٖ یہ صورتحال اسلام آباد لاک ڈائون کی بنی تھی  تب بھی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کا ہوا دکھاکر آگے بڑھا جا رہا تھا۔ پہلی تحریک انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے دوسری پاناما لیکس کے حوالے سے تھی۔ پہلی تحریک میں عمران خان کا کارکن زیادہ پرجوش تھا لیکن وقت گزرنے کے بعد تحریک انصاف جب کافی حد تک روایتی جماعت کی حیثیت اختیار کر گئی اور مسلسل احتجاج، دھرنے، لاک ڈائون، لانگ مارچ کر کرکے کارکنوں کا جوش و خروش مدھم پڑ گیا تو حکومت نے اسلام آباد لاک ڈائون کو اپنی حکمت عملی اور بغیر طاقت استعمال کئے ناکام بنا دیا۔ اس دفعہ حکومت تھرڈ امپائر کے خوف سے بےنیاز ہے اور کارکردگی دکھانے کے حوالے سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی نے اس کو حوصلہ دے رکھا ہے کہ پاناما لیکس کے حوالے سے اس کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔ اس مرتبہ عوامی تحریک کے بجائے پیپلز پارٹی وزیراعظم کے استعفیٰ کے مطالبے میں تحریک انصاف کی ہمنوا ہے لیکن یہ تحریک انصاف اور اس کے کارکنوں کیلئے کوئی مثبت بات نہیں ہے اور اس سے کرپشن کے خلاف ان کی دلیل رد ہوتی کہ وہ صرف نواز شریف کو ہٹانے کے درپے ہیں۔ اس مرتبہ یعنی اس سال تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن جارحانہ رویہ رکھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وزیراعظم کو عہدے سے الگ ہونے کا نہیں کہا تھا تو وہ کیوں عہدے سے الگ ہوں۔ مسلم لیگ (ن) کا کارکن اور خود اس کے عہدیدار سمجھتے ہیں  کہ وہ 2018ء میں عام انتخابات میں کامیاب ہونے جا رہے ہیں۔ اس کے پاس سی پیک اور توانائی کے بحران کے خاتمہ کی دلیل ہے۔ تحریک انصاف کے پاس 28اپریل سے 28مئی تک کا وقت ہے۔ پھر رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو جائیگا اور پھر ایک ہفتہ عید کی تعطیلات اور تہوار کا ہوگا۔ اس وقت تک پاناما لیکس کے حوالے سے انکوائری کمیٹی اپنا کام مکمل کرچکی ہوگی۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔
تازہ ترین