• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ پاکستان وہ نہیں جس نے 14اور15اگست کی شب اترتے ’’تہجدّی لمحوں‘‘ میں جنم لیا تھا، یہ اس کا آدھا حصہ ہے جسے ہم نے ’’پاکستان‘‘ کی حیثیت سے قبول کرلیا، جو جدا ہوا اس نے خود کو بنگلہ دیش کے نام سے معنون کیا۔
قومی سطح پر سلیمان کھوکھر جیسے تصدیق شدہ سیاسی ورکر کو آج بھی ’’ڈھاکہ کی پٹ سن، سلہٹ کی چائے کے باغات اور کرنافلی کے کاغذ کی خوشبو‘‘ آنا شروع ہو جاتی ہے، بنگلہ دیش جس کے بنانےپر، ’’سب پاگل ہوگئے تھے‘‘، ’’سب مارے گئے‘‘، سب کو اقتدار لے ڈوبا‘‘، ’’ذمہ داروں کو قدرت نے سزا دی‘‘، ’’ندرالاسلام کی دھرتی بانجھ ہوگئی‘‘، ’’ٹیگور کے گیتوں کی آواز آنا بند ہو گئی‘‘، ’’حسین شہید سہروردی کی چہچہاہٹوں کو کان ترس گئے‘‘، ’’مانجھی رے مانجھی‘‘ وہ جشن مرگ انبوہ کیا تھا‘‘، ’’اپنی کشتی کھینچنے کا وہ بول سنائو جن کے عجیب سے اداس لفظوں سے خود کو رلاتے رہے، رلا رہے ہو!‘‘
جن لوگوں نے اپنے بچپنوںاور جوانیوں کو ’’ایک پاکستان‘‘ کے سائبان تلے ابھرتے، پنپتے اور گزرتے دیکھا، محسوس کیا وہ اسی میںLiveکرتے رہے، کررہے ہیں، تخلیق کاروں نے پاکستان کی اس تقسیم کی چہرہ شناسی کے لئے انسانی ہئیت کے کسی ’’پاگل خانے‘‘ میں پناہ ڈھونڈی، ’’سب پاگل ہوگئے تھے‘‘ کہہ کر ان کالم نگاروں نے بہت ہی درد انگیز مثالیں دیں، ایک نے پاکستان کے بطن سے بنگلہ دیش کی پیدائش پر جھنجھلا کر کسی کردار سے کہلوایا ’’تم کسی پاگل خانے گئے ہو، میں ایک مرتبہ اپنے شوہر للّت کے ساتھ پاگل خانے گئی تھی، برازیل کے ایک شہر میں، وہاں ایک آدمی خور کو چائے دانی سمجھتا تھا، دوسرا کہہ رہا تھا میں جیزس کرائسٹ ہوں، ایک عورت کا خیال تھا وہ مگرمچھ ہے، ایک عورت کو یقین تھا وہ گرینڈ ٹاور نگل چکی ہے۔
یہ کہانیاں ہی تھیں جن کے سہارے نے پاکستان کے پیٹ سے بنگلہ دیش کی پیدائش کے غم کو بہنے کا راستہ دیدیا البتہ بھلادینے میں کامیاب نہ ہوسکیں، ہر وقت ایک مستقل جرثومے کی سرسراہٹ ذہن میں کبھی ٹک ٹک کی صورت میں، کبھی رینگنے کے انداز سے جاری رہتی، کیا پاکستان میں حکمرانی کی مرکزی احرار کی پنجابی تربیت کے افراد کی تعداد، حیثیت اور کردار پر کوئی ایسی تاریخ کبھی لکھی جاسکے گی جس میں پوری دیانتداری سے، پوری تصدیق سے، دفاع، خارجہ، اقتصادیات اور ریاست کے آئینی ڈھانچے میں پنجابی قومیت کے افراد کی تعداد اور کردار کا ترتیب وار جائزہ لیا جائے، مثلاً پاکستان کی خاکی اور غیر خاکی خفیہ ایجنسیوں کے 1971ءتک کے سربراہوں میں کتنے پنجابی تھے اور کتنے دوسرے؟ اور علیٰ ہذ القیاس! مگر یہ ان خوابو ں میں سے ایک ہوگا جن کی تعبیر تقدیر کی منظوری کے سوا ممکن نہیں!
گفتگو پاناما کے بجائے معلوم نہیں 1971ءپاکستان کے دولخت ہونے کی المناک وادیوں میں کیسے چلی گئی؟ کیا اس کا کوئی لاشعوری سبب ہے؟ امکانات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، جس مستند کالم نگار کے کالم کی سرخی ’’گیم لک چکی، ٹارگٹ منتخب وزیراعظم ہے‘‘ کا تذکرہ ہوا وہی اس لاشعوری سبب کا محرک محسوس ہورہا ہے، اس لئے کہ پاناما کے فیصلے سے پہلے اندیشوں، وسوسوں اور وہموں نے اپنی فصلیں کاشت کردی تھیں،
کیا منتخب وزیراعظم ٹیپ ڈائون کر جائے گا؟
کیا کسی قانون کے آئینے میں عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت کا جمہوری پارلیمانی ڈھانچہ لپیٹ دیا جائیگا؟
کیا ماضی کے غیر آئینی سائے کسی بھی شکل میں جمہوری تسلسل کے لئے آسیب بن سکتے ہیں؟ یہ اندیشے، وسوسے اور وہم اس فیصلے نے ختم کردیئے!
جمہوری نظام کا تسلسل قائم رہنے کے اطمینان نے ایک فلمی گیت کی یاد تازہ کردی، بہ آواز بلند اس کا ایک مصرع گنگنانے کو دل چاہا ’’بہارو پھول برسائو، میرا محبوب آیا ہے‘‘ ، نغمہ نگار اور گلوکار اور آپ نے اس گانے کے اطلاق پر کسی قسم کا کوئی ابہام کبھی محسوس نہیں کیا ہوگا، سیدھی سی بات ہے، کوئی محبت کا مارا اپنے محبوب کی آمد پر گا رہا ہے ’’بہارو پھول برسائو، میرا محبوب آیا ہے‘‘، لیکن مجھے پاناما فیصلے کے نتیجے میں جمہوری تسلسل قائم رہنے کے یقین نے یہ مصرع گنگنانے پر مجبور کردیا، جمہوری تسلسل ہی غالباً میرا ’’محبوب‘‘ ہے اسے پاکستان کے دولخت ہونے کی انمٹ ٹریجڈی نے ہمارے ذہنوں میں نصب کردیا ہے، ہمیں یہ بھول ہی نہیں سکتا کیا نہیں بھول سکتا، یہ کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل تسلیم نہ کرنے سے ہمارا ملک تقسیم ہوا، اب جمہوری نظام پر کسی بھی نوع کی گرم ہوا کا ذرا سا گرم جھونکا بھی اس کی جغرافیائی بقا کو جھلسا کر رکھ دے گا۔ (خاکم بدہن)
راقم پاکستان کی سیاست کا عینی شاہد ہے، سمندر یا دریا کے کنارے کھڑا رہنے والا عینی شاہد نہیں، ایسا عینی شاہد جس پر پاکستان کے شب و روز کا لمحہ لمحہ بیتا ہے، جن لوگوں نے اس دھرتی پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو کسی مقدس مشن سے وابستہ کیا، جن لوگوں نے قومی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں لسانی سیاسی جماعتوں کے بیج بوئے، جن لوگوں نے یہاں مذہبی فرقہ واریت کے منصوبوں پہ عمل کیا، عمل کروایا، آئین پاکستان کی قومی دستاویز تک میں داخل ہوگئے، اس پس منظر سے آگاہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی شخصیات کالم نگار سے کہیں بلند تر ہیں، انہیں حب الوطنی اور آئین کے روحانی کردار کا عاجز سے کہیں زیادہ ادراک ہے، چنانچہ فیصلے میں جمہوری تسلسل، ووٹ کی حرمت اور آئین کی بالادستی کے قیام کی آئینی پوشیدگی، خاکسار جیسے عینی شاہدوں کو سجدہ شکر بجا لانے پر ابھارتی ہے!
یہ جو وزیراعظم استعفے دے، ’’اخلاقی تقاضا مستعفی ہونے میں ہے‘‘ ’’نواز شریف اپنے انجام سے پہلے گھر چلے جائیں گے‘‘، ’’تفتیشی افسروں کے سامنے پیش لانا وزارت عظمیٰ کی توہین ہے‘‘، ’’کرپشن کے خلاف ہمارا جہاد جاری رہے گا‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔
منتخب وزیراعظم عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے بجائے مستعفی کیوں ہوں؟ وہ فوری طور پر درمیانی مدت کے قومی انتخابات کا اعلان کیوں کریں؟ اے اصحاب پاکستان! آئو، سب مل کر منتخب وزیراعظم سے مخاطب ہوں، ’’آئینی بالادستی استعفے نہ دینے میں ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد، استعفے نہ دینے میں ہے، ہرگز مستعفی نہ ہوئیے گا بصورت دیگر پاکستان کے آئینی ڈھانچے کی لرزش، شکست اور انہدام (خدانخواستہ) کے آپ ذمہ دار ہوں گے، قدرت نے یہ ذمہ داری آپ کو تفویض کی ہے، سیاسی نفس پرست تو ایسی اشک بار گھڑیوں میں صرف یہ ڈھنڈیا مچائیں گے، ’’کہاں ہیں ہماری ڈانگیں اور پوٹلیاں ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے حلوہ کھا کر جارہے ہیں!‘‘
پس نوشت: ہم پاکستان میں حکمرانوں اور حکومتوں پر بھرپور تنقید کرتے رہتے ہیں۔ کبھی اچھے کاموں کو سراہنا بھی چاہئے، یہ بھی انصاف کا تقاضا اور عوام کی فلاح کا ایک راستہ ہے۔ دنیا بھر میں ہنرمندی اور فنی تعلیم کی اہمیت سے ہم سب واقف ہیں۔ پنجاب میں صوبائی حکومت کے ادارے ٹیوٹا نے دنیا کے دیگر ممالک سے مل کر شارٹ کورسز کا جو سلسلہ شروع کیا ہے قابل تحسین ہے، نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کر کے اس ادارے کے چیئرمین عرفان قیصر شیخ ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، مجھے بتایا گیا ’’ٹیوٹا کی ترجیح اب عمارتیں بنانا نہیں بلکہ ’’ہیومن ریسورس‘‘ پر پیسہ لگانا ہے‘‘، یہی ترجیح ہونی چاہئے!



.
تازہ ترین