• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منتخب جمہوری حکومتوں سے بجا طور پر توقع رکھی جاتی ہے کہ ان کی تمام پالیسیاں اور اقدامات عوامی مفادات سے ہم آہنگ ہوں گے لیکن ہمارے ہاں آئے دن اس کے برعکس مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک جنگلات اور درختوںکی حفاظت کا معاملہ بھی ہے ۔اس ضمن میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتیں عوامی مفادات کو جس بری طرح نظر انداز کررہی ہیں اس کا اندازہ مارگلہ او ر لورا کے جنگلات میں اسٹون کرشنگ مافیا کی جانب سے درختوں اور پتھروں کی کٹائی کرکے قدرتی حسن اور ماحول کو تباہ کرنے کے خلاف گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ایک ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس عظمت سعید کے ان ریمارکس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کیا وفاق، پنجاب اور خیبرپختون خوا کی حکومتوں نے مافیا سے پیسے لے رکھے ہیں جو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی؟جسٹس عظمت سعید کے علاوہ جسٹس مقبول باقر اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل اس بنچ کے سامنے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے مارگلہ کی پہاڑیوں کے تحفظ کیلئے کیے گئے اقدامات کی تفصیل اور گوگل رپورٹ پیش کی گئی تو بنچ کے سربراہ نے متعلقہ ذمہ داروں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اسلام آباد کی تو فکر ہے لیکن ایبٹ آباد کی پہاڑیوں کی کوئی پروا نہیں جہاں درختوں کی کٹائی اور بلاسٹنگ ثابت ہوچکی ہے،ان کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم کے باوجود درختوں کی کٹائی اور پہاڑوں کے بارودی دھماکوں سے اڑائے جانے کا عمل بظاہر تینوں حکومتوں کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے جاری ہے کیونکہ کسی حکومت نے بھی اسے روکنے کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی۔ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنے اور دیگر کئی حوالوں سے جنگلات، درختوں اور پہاڑوں کی اہمیت محتاج وضاحت نہیں ، لہٰذا تینوں متعلقہ حکومتوں کو عوامی مفاد میں جنگلات اور پہاڑوں کی بربادی کے اس سماج دشمن عمل کو کم از کم اب کسی مزید تاخیر کے بغیر روکنا چاہیے ورنہ لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ حکومتوں کے ذمہ دار خود اس مجرمانہ کارروائی کی سرپرستی کررہے ہیں۔

.
تازہ ترین