• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معاشرہ امن اور نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھلے ماحول کا نام ہے اسی لئے زندگی کو ضابطے کا پابند بنانے کے لئے ترقی کی جانب گامزن ہوتے ہی انسان نے قانون سازی کو بنیادی اہمیت دی کیوں کہ جب تک آپ کے پاس ایک منشور اور نقشہ نہ ہو آپ زندگی کا سفر درست سمت طے کرتے ہوئے دشواری محسوس کرتے ہیں۔ اگر چوکوں پر اشارے موجود نہ ہوں تو کسی کا بھی گاڑی چلانا ممکن نہ رہے۔ دستور بھی دراصل ٹریفک کے اشاروں کی طرح ہوتا ہے جو آپ کو رکنے، ٹھہرنے اور گزرنے کا اشارہ دیتا ہے۔ آپ من مانی نہیں کر سکتے۔ کہیں پہنچنے کی جلدی آپ کو قانون شکنی کی اجازت نہیں دے سکتی کیوں کہ اس صورت میں آپ نہ صرف دوسروں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں بلکہ آپ کی اپنی زندگی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ قانون ذاتی پسند ناپسند کی بنا پر فیصلہ کرنے سے آپ کو روکتا ہے۔ ہر شعبہ زندگی کے لئے مخصوص قوانین موجود ہیں جن کی پیروی کر کے زندگی کو تہذیب یافتہ بنایا جا سکتا ہے۔ قانون کی حکمرانی اور اس کے نفاذ کے لئے کام کرنے والے ادارے یعنی عدالتیں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ باقی تمام ادارے بھی ان کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آمرانہ دور میں عدلیہ جیسے اعلیٰ ترین ادارے کو بھی اپنی منشا کے مطابق ڈھالنے کے احکامات جاری ہوتے رہے ہیں اور آج بھی کچھ سیاسی قوتیں اپنی مرضی کے فیصلے کے لئے واویلا کرتی رہی ہیں مگر اصولوں اور قانون کی حکمرانی کی قسم کھانے والوں نے مشکلات کا سامنا کیا مگر کسی جابر کے سامنے سرنگوں ہونا گوارا نہ کیا۔ بڑی دیر آمریت کے سائے تلے برسوں کام کرتے رہنے کے بعد آزادانہ فیصلے کرنے کے لئے اس ادارے کو کچھ وقت ضرور لگا ہے اور ابھی بھی اس میں کچھ باقیات موجود ہیں مگر مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ یہاں سوال صرف یہ نہیں ہے کہ عدلیہ کا کردار کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ خود کو منصف سمجھ کر فیصلہ کرنے کا ازخود اختیار حاصل کر چکے ہیں اور دن بدن یہ روش بڑھتی جا رہی ہے۔
پوری دنیا میں 3 مئی کو صحافت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہر دن کے منانے کا مقصد اس سے جڑی مقصدیت کے ساتھ ساتھ اپنے رویوں پر نظر ثانی بھی ہوتا ہے۔ اس دن کے حوالے سے اگر ہم اپنے کردار کا یقین کریں تو نتائج خاصے خطرناک اور مایوس کن ہیں۔ ہم سب کالم نگار، تجزیہ کار، رپورٹر کم اور منصف زیادہ بن چکے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور اینکر خواتین و حضرات کا کردار پچھلے کچھ سالوں سے زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ پہلے چند اخبارات اور گِنے چنے کالم نگار تھے پھر میڈیا انڈسٹری بنا اور دھڑا دھڑ اخبارات نکلنے لگے۔ اس شعبے سے متعلق علم نہ ہونے کے باوجود اخبارات کے لائسنس حاصل کرنا مشکل نہ رہا تو کچھ ایسے لوگ بھی اس سمت آئے جن کا مقصد کچھ اور تھا اور ان کے دروازے پر تختی کسی اور نام کی لگی ہوئی تھی۔ یہیں سے سارے مسائل نے سر اٹھایا۔ پہلے سے قائم اداروں کی کردار کشی کر کے اپنا قد اونچا کرنے کی روش اپنائی گئی۔ بے شمار ایسے کالم نگار اور تجزیہ نگار وجود میں آئے جن کا لکھنے اور تجزیے سے دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔ ان لوگوں نے خود کچھ کرنے کی بجائے زہریلی تنقید کا پیشہ اپنایا اور زرد صحافت کو فروغ دیتے ہوئے دوسروں کی غلطیوں کو منفی انداز میں اچھالنے کا بیڑہ اٹھایا۔ انسان انسان ہی ہوتا ہے فرشتہ نہیں۔ اس کے رویے میں اچھائیوں کے ساتھ غلطیوں کی بھی گنجائش موجود رہتی ہے جب کہ لکھنے والا صرف تاریک پہلو پر نظریں جمائے بیٹھا ہو تو پھر کسی بھی فرد میں اچھائی دکھائی ہی نہیں دیتی۔ اچھائی برائی تو دور کی بات ہے یہاں کردار کشی کی صنعت کو فروغ دیا گیا۔ راتوں رات کسی کو ہیرو اور کسی کو زیرو کر دینے کی رسم چلی۔ ایسے ایسے الزامات ان لوگوں پر لگائے گئے جنہوں نے اس حوالے سے کبھی اِک بات بھی نہ کی ہو۔ بھلے ایسے لوگوں نے کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیا مگر ان کا دل تو ضرور دُکھا ہو گا، ان کے لبوں سے کوئی آہ تو ضرور نکلی ہو گی، انہوں نے الزام لگانے والوں کی ذہنیت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انسانی قدروں کی پامالی کا رونا بھی ضرور رویا ہو گا مگر ریٹنگ اور تشہیر کے شوقین یہ کہاں سوچتے ہیں۔
صحافت کے عالمی دن کے حوالے سے اگر ہم پاکستان میں صحافت کے عروج و زوال کی داستان پر غور کریں تو میڈیا نے جمہوریت اور انصاف کے حصول میں جہاں خاصا طاقتور کردار ادا کیا ہے وہیں میڈیا میں موجود ایک مخصوص سوچ نے اس کے برعکس اپنے منفی کردار سے صحافتی اقدار کو شدید نقصان پہنچایا اور آمرانہ طرزِ فکر کو رائج کرنے کے لئے منفی انداز اختیار کیا۔ یہ لوگ ہمیشہ جمہوریت کے مقابل آمریت کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں اور اسی کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ آج پوری دنیا جمہوریت کی ہم نوا ہو چکی ہے اور اسی میں انسانیت کی بھلائی ہے مگر کچھ مخصوص جمہوری رہنمائوں کے کردار کو مثال بنا کر پورے نظام کو خطرے میں ڈالنا قوم سے غداری کے مترادف ہے۔ سچ کہا جائے تو زرد صحافت کے پیروکاروں کے کردار نے نئی نسل کے سامنے ایک ایسی صحافت کو متعارف کروایا ہے جس کا مقصد دوسروں پر کیچڑ اچھالنا، اونچی آواز میں بات کرنا، الزام سے آغاز کرنا اور خود کو منصف ظاہر کرنا ہے۔ جب ہر فرد منصف بن کر دوسروں کے کردار کا محاسبہ کرے گا تو صحافتی اقدار کا چہرہ مسخ ہوتا جائے گا کیوں کہ صحافی کا مقصد کردار کشی نہیں بلکہ معاشرے میں موجود منفی رویوں کی نشاندہی ہے۔ صحافی ایک ایکسرے مشین کی مانند ہوتا ہے جو معیشت اور معاشرے کی اصل حالت کے بارے میں قوم کو آگاہ کرتا ہے۔ مرض کے بیان میں فرق ہو سکتا ہے مگر ذاتی تعصب اور دشمنی پر مبنی رائے شامل ہو جائے تو تصویر کی صورت اس حد تک بگڑ جاتی ہے کہ اصل صورت حال کا اندازہ لگانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ پاکستان ہمارا ملک ہے۔ ہم سب اس کے چاہنے والے اور خیر خواہ ہیں کیوں کہ یہ دنیا میں ہماری شناخت کا مظہر ہے۔ ذرا سوچئے جب ہم اس کے حوالے سے ایسا ماحول پیدا کریں گے جو قوموں کی زندگی میں اس کی شناخت کو مجروح کر دے تو یہ اینٹ گارے کی عمارتوں کا مورال کم نہیں کرے بلکہ ہماری پہچان اور حیثیت پر سوالیہ نشان ثبت کرے گا۔ جب ہم اپنے رویے اور تحریروں سے کسی بھی برسر اقتدار حکومت کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کے بارے میں افواہیں پھیلاتے ہیں، بددیانتی کا رونا روتے ہیں تو پوری دنیا کے سرمایہ داروں اور پالیسی سازوں کو یہاں کا رُخ کرنے سے اجتناب کا پیغام دیتے ہیں۔ ہم حکومت کا برا نہیں کرتے بلکہ ملک کے مفادات کا سودا کرتے ہیں۔ اپنے تعارف کو مشکوک کرتے ہیں۔ حکومتیں دودھ کی دھلی نہیں ہوتیں مگر تنقید اور خرابیوں کی نشاندہی کا بھی سلیقہ ہونا چاہئے۔ صحافت کے عالمی دن کے حوالے سے میں نے اپنا احتساب کرنے کی بھرپور کوشش کی، اپنی تحریروں کا جائزہ لیا، اپنی فکر کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر غور کیا اور بطور انسان اپنے فرض کو پہچاننے کی کوشش کی۔ میری منصفی میرے وجود تک محدود ہے۔ معاشرے میں انصاف کے لئے مخصوص ادارے موجود ہیں۔ آئیے ہم سب منصف بننے کی بجائے اچھے انسان بننے کی کوشش کریں اور لوگوں کو تبلیغ سے بدلنے کی بجائے اپنے عمل سے متاثر کریں۔ شاید ہم کچھ بہتر کر سکیں ورنہ بے مقصد زندگی سے کیا حاصل؟

.
تازہ ترین