• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جب کچھ لوگ ایک بدکار عورت کو سنگسار کرنے کیلئے اُن سے اجازت طلب کرنے آئے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے لوگوں سے فرمایا کہ ’’اِس عورت کو وہی شخص پہلا پتھر مارے گا جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو۔‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ فیصلہ سن کر مجمع آہستہ آہستہ چھٹ گیا کیونکہ مجمع میں موجود ہر شخص کو یہ احساس ہوا کہ وہ خود بھی تو گناہگار ہے۔
پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتیں وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو اخلاقی طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہوجانا چاہئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم سے اخلاقی طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں اور اُن پر بھی کچھ اِسی طرح کے الزامات ہیں جبکہ عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنمائوں کے خلاف آف شور کمپنیوں اور غیر قانونی جائیداد کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی سماعت بھی جاری ہے۔ شریف فیملی پر الزام ہے کہ انہوں نے 1992-93ء میں لندن میں جو فلیٹس خریدے تھے، اُس کے لئے شریف فیملی کے پاس پیسہ کہاں سے آیا تھا؟
میرا سال میں کئی بار لندن جانا ہوتا ہے اور میں لندن کی ہر اُس گلی سے بخوبی واقف ہوں جہاں پاکستانی سیاستدانوں، بیورو کریٹس، اشرافیہ اور فوجی جنرلز کی جائیدادیں ہیں، اگر میں اِن جائیدادوں کی فہرست یہاں بیان کروں تو شاید میرا کالم ہی اس فہرست سے بھرجائے۔ مختصراً صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جن سیاسی جماعتوں کے رہنما، شریف فیملی کی لندن میں جائیدادوں کا حساب مانگ رہے ہیں، اُن کی بھی لندن میں کروڑوں کی جائیدادیں ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جب لندن میں مقیم تھے تو ان کا لندن کے مہنگے ترین علاقے چلسی میں اپارٹمنٹ تھا جو بعد میں انہوں نے فروخت کردیا۔ اِسی طرح پیپلزپارٹی کی قیادت کے بھی لندن کے مہنگے ترین علاقے نائٹس برج کے علاوہ مختلف علاقوں میں اپارٹمنٹس ہیں۔ ان دو جماعتوں کے علاوہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف لندن کے مہنگے ترین علاقے ایجور روڈ پر واقع اپارٹمنٹ کے مالک ہیں، اِس کے علاوہ جنرل پرویز مشرف دبئی کے مہنگے ترین علاقے ڈائون ٹائون میں جن اپارٹمنٹس میں قیام پذیر ہیں، وہ بھی اُن کی ملکیت ہیں۔ ایم کیو ایم لندن کی قیادت کی بھی لندن میں اربوں کی جائیدادیں ہیں جبکہ دبئی میں کئی بلند و بالا عمارتیں بھی اُن کی ملکیت ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ ان جماعتوں کے دیگر رہنمائوں جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے، کے اپارٹمنٹس بھی لندن کے مہنگے ترین علاقوں سمیت دبئی اور دنیا کے دیگر مہنگے ترین شہروںمیں موجود ہیں۔
پاکستانیوں کی بیرون ملک موجود جائیدادوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستانیوں جن میں سیاستدانوں کی بڑی تعداد شامل ہے، نے صرف دبئی میں تقریباً 6 ارب ڈالر سے زائد کی جائیدادیں خریدیں اور یہ پاکستانی، دبئی میں پراپرٹی کی خریداری میں بھارتیوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق پاکستانیوں نے تقریباً 150ارب ڈالر بیرون ملک منتقل کر رکھے ہیں جس میں سے زیادہ تر رقوم سے لندن، پیرس، دبئی، ملائیشیا، آسٹریلیا، امریکہ، کینیڈا، اسپین اور دیگر ممالک میں پراپرٹیز میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ نے لندن اور دبئی میں قیمتی فلیٹس کس طرح خریدے تو جنرل پرویز مشرف نے دلیل دی کہ اِن فلیٹس کی خریداری کیلئے اُنہیں سعودی شاہی فیملی نے رقوم فراہم کی تھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنرل پرویز مشرف کی دلیل قابل قبول ہے تو پھر قطری شہزادے کا خط کیوں قابل قبول نہیں اور صرف وزیراعظم سے ہی کیوں بیرون ملک جائیداد کی خریداری کا 26 سالہ پرانا حساب مانگا جارہا ہے جبکہ دوسرے لوگوں کو ’’مقدس گائے‘‘ کیوں سمجھا جارہا ہے؟ پاکستان کے ٹیکس قوانین کے مطابق کسی ٹیکس دہندہ سے 6 سال پرانے اثاثے اور آمدنی کے بارے میں ریکارڈ طلب نہیں کیا جاسکتا توکوئی یہ سوال بھی اٹھا سکتا ہے کہ کیا شریف فیملی سے سالوں پرانا ریکارڈ طلب کرنا زیادتی نہیں؟
کچھ ماہ قبل میں نے پانامااسکینڈل پر لکھے گئے اپنے کالم میں بتایا تھا کہ پاناما اسکینڈل آئس برگ کے ایک ٹپ کی مانند ہے اور پاکستانیوں کی ایسی سینکڑوں آف شور کمپنیاں دنیا کے اُن ممالک میں موجود ہیں جو آف شور کمپنیاں بنانے کے حوالے سے مشہور ہیں، اگر دوسرے ممالک کی لیکس بھی منظر عام پر آگئیں تو مزید کئی چہرے بے نقاب ہوں گے۔ میری کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں اور نہ ہی کالم لکھنے کا مقصد کسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت کرنا ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اخلاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھا جارہا ہے اور زمینی حقائق تسلیم کرنے پر کوئی بھی آمادہ نہیں بلکہ چیخنے چلانے اور الزام تراشیوں کا رواج چل نکلا ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ کچھ لوگ آئین و قانون کی پاسداری کرنے کے بجائے اِس میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں کررہے ہیں جبکہ عدالتی فیصلوں کی من پسند تشریح کرکے پورے دلائل سے اپنے موقف کو درست اور دوسروں کے موقف کو مسترد کیا جارہا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر اداروں پر اسی طرح عدم اعتماد کرکے تنقید کا سلسلہ جاری رہا تو باقی کچھ نہ بچے گا۔ زیادہ اچھا ہے کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو جو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے، اُس کا انتظار کیا جائے۔
وزیراعظم کو جن القابات سے نوازاجا رہا ہے وہ مناسب نہیں بلکہ یہ عہدے کی توہین ہے، اگر ہم اپنے وزیراعظم کا احترام نہیں کریں گے تو دوسرے ممالک کس طرح وزیراعظم پاکستان کو عزت دیں گے؟ کسی نے سچ کہا ہے کہ اپنی آواز کے بجائے اپنے دلائل کو بلند کیجئے۔ ہم دوسروں کے گناہوں پر نظر رکھتے ہیں اور اُنہیں سزا کا مستحق قرار دیتے ہیں لیکن اپنے گناہوں اور غلطیوں پر نادم و شرمندہ نہیں ہوتے۔ ہمیں دوسروں پر سنگ باری کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہئے کہ کہیں ہمارے دامن بھی تو داغدار نہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ احتساب اُن سب کیلئے ہو جن کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں اور سپریم کورٹ کی جے آئی ٹی میں رکھے گئے سوالات کا جواب اُن تمام سیاستدانوں اور دیگر لوگوں سے بھی پوچھے جائیں جن کی بیرون ملک جائیدادیں اور اکائونٹس ہیں تاکہ اخلاقیات کا سبق دینے والوں کا اصل چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب ہوسکے۔



.
تازہ ترین