• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغانستان کے بعد اب ایران کے ساتھ تعلقات خراب ہونے سے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ لگتا ہے کہ علاقائی امن کو تباہ کرنے کے لئے امریکہ اور بھارت نے جو گیم پلان تشکیل دیا تھا اُس کے واضح اثرات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ پہلے افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی پیدا کی گئی اور اب ایرانی فوج کے سپہ سالار جنرل محمد حسین باقری نے بھی پاکستان کے اندر کارروائی کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ برادراسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات اچانک اس قدر خراب کیسے ہوگئے؟ کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے یا پھر حکومت پاکستان کی بے تدبیری اور نااہلی ہے کہ ہم نے اپنے قریبی دوست ملکوں کو بھی اپنا مخالف بنالیا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ابھی تک پاک افغان سرحد کشیدگی برقرار ہے۔ باب دوستی بارڈر گزشتہ کئی روز سے بند پڑا ہے۔ چند روز قبل جمعتہ المبارک کے دن چمن بارڈر پر افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا۔ افغان فورسز نے پاکستانی علاقے میں گھس کر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی جس کے نتیجے میں درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ پاکستانی فورسز کو بالآخر مجبوراً جوابی کارروائی کرنا پڑی اور افغان فوج کو دندان شکن جواب دیاگیا۔ تاہم افغانستان کے پچاس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد افغان حکام بھی مذاکرات کی میز پر آگئے ہیں۔ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے عناصر افغانستان میں موجود ہیں۔ افغان حکومت کو بھی ان دہشت گرد عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے۔ افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان کے حالات بھی بہتر ہوجائیں گے۔ پاکستان افغانستان سے مسلسل یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کا صفایا کرے۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغان حکام کو پاکستانی مطالبے پر فوری عمل درآمد کرنا چاہئے۔ آئی جی ایف سی میجر جنرل ندیم انجم نے دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ ملکی دفاع کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے 50فوجی مارے جانے اور پانچ پوسٹیں تباہ ہونے سے ہمیں کوئی خوشی نہیں ہوئی ہے۔ ہم ہر قیمت پر علاقائی سالمیت یقینی بنائیں گے۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ ہماری تاریخی، جغرافیائی اور مذہبی وابستگی موجود ہے۔ اگرچہ ماضی میں افغانستان کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہا تاہم یہ دونوں ایسے ہمسایہ ممالک ہیں کہ جن کی سرحدوں سے ہمیں کبھی بڑے خطرات لاحق نہیں رہے۔ افغانستان کے ساتھ ہماری 2500کلومیٹر شمالی مغربی سرحد لگتی ہے۔ پاکستان کو کبھی انڈیا کے بارڈر کی طرح وہاں بڑے پیمانے پر اپنی فورسز لگانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ جب سے نائن الیون کا واقعہ پیش آیا ہے شمالی مغربی سرحد ہمارے لئے دردسر بن گئی ہے۔ اسی طرح ایران کی سرحد پر بھی ہمیشہ حالات پُرامن رہے ہیں۔ اِکادُکا واقعات ہوتے رہتے ہیں مگر وہاں کبھی قومی سلامتی کا سنگین معاملہ پیش نہیں آیا۔2001میں امریکہ نے جب افغانستان پر قبضہ کیا اور لاکھوں بے گناہ افغانیوں کا قتل عام کیا تو اُس کے ردعمل میں پاکستان میں بھی حالات خراب ہوئے کیونکہ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کی کاسہ لیسی میں ہمیں نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں بری طرح پھنسا دیا تھا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ دسمبر 2014میں امریکی ونیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلا کے باوجود ابھی تک ہم عالمی دہشت گردی کی اس جنگ سے نکل نہیں پارہے۔ امریکی ونیٹو فورسز ڈھائی لاکھ کی تعداد میں افغانستان میں موجود تھیں۔ جب امریکہ کو پندرہ سال تک افغان جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوا تو وہ ذلت ورسوائی کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوگیا۔ اب وہ اپنی ناکامی کابدلہ پاکستان سے لے رہا ہے۔ پاک سرحد پر کشیدگی اور ایران سے تعلقات کی خرابی کا اصل فائدہ امریکہ اور بھارت کو ہواہے۔ بھارت ایران کا دیرینہ دوست ملک ہے اور ان دونوں ملکوں کے آپس میں بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ ایران کا یہ حق ہے کہ وہ دنیا میں کسی بھی ملک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھ سکتا ہے مگر اُسے پاکستان کی بے لوث دوستی اور گہرے تعلق کا بھی ضرور خیال رکھنا چاہئے۔
یادش بخیر! پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے میں امریکہ کی اشیر باد پر ہندوستان نے ایران کو دھوکہ دیا تھا۔ وہ خطے میں ترقی کے اس عظیم منصوبے سے نکل کر اسے ناکام بناناچاہتا تھا لیکن پاکستان نے مشکل وقت میں ایران کا ساتھ دیا۔ ایران پر امریکی پابندیوں کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدہ ختم نہیں کیا گیا۔ اب ایران منصوبے پر اپنے حصے کا کام مکمل کرچکا ہے اور پاکستان نے اپنے علاقے میں ابھی پائپ لائن بچھانی ہے۔ ان حالات میں ایرانی فوج کے سربراہ کو پاکستان کے خلاف نازیبا اور غیر جانبدارانہ بیان ہرگز نہیں دینا چاہئے تھا۔ ایران اس وقت امریکہ کے زیر عتاب ہے۔ غیر ملکی پابندیوں کی وجہ سے اس کی معیشت دگرگوں ہوچکی ہے۔ موجودہ نازک صورتحال میں ایرانی حکام کو پاکستان اور سعودی عرب کے خلاف بیانات سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ سعودی عرب عالم اسلام کا مرکز ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان اُسے عقیدت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ قابل ذکر امریہ ہے کہ پاکستان نے بھی ایرانی آرمی چیف کی دھمکی پر سفارتی سطح پر ایران سے شدید احتجاج کیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جب سے بلوچستان سے پکڑے گئے بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کو پاکستان کی جانب سے پھانسی کی سزا سنائی گئی اُس وقت سے ایک منظم سازش کے تحت افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خراب کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ کل بھوشن یادیو نے انکشاف کیا تھا کہ وہ ایرانی بندرگاہ چابہار میں کئی سال تک مقیم رہا اور وہ وہاں سے کراچی اور بلوچستان کئی مرتبہ آیا۔ اُس نے اپنا ایرانی پاسپورٹ بھی بنایا ہوا تھا لیکن پاکستانی حکومت نے اس اہم معاملے پر بھارت کو ہدف تنقید بنایا اور ایران کے بارے میں دانستہ طور پر محتاط طرزعمل کا مظاہرہ کیا۔ ایران کویہ سمجھنا چاہئے کہ پاکستان شام اور عراق نہیں ہے اور ایسے منفی بیانات دینے سے ایرانی حکومت بدنام ہوگی اور اس کا فائدہ بھی اسلام دشمن عناصر کو ہوگا۔ اگر ایران کو پاکستان کے ساتھ تحفظات ہیں تو حکومت پاکستان کو برادر اسلامی ملک کے تحفظات کو دور کرنا چاہئے۔ لیکن ایرانی حکومت کو کسی بھی صورت امریکہ اور بھارت کے تیار کردہ کسی گیم پلان کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔ پاکستان نے ایک ذمہ دار اسلامی ملک ہونے کے ناتے اسلامی ملکوں کو آپس میں جوڑنے کے لئے اپنا مرکزی کردار ادا کیا ہے مگر بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ میں تاحال پراکسی وار جاری ہے اور اُس کے خاتمے کے لئے بھی اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کواپنا فعال رول ماڈل ادا کرنا پڑے گا۔ پاکستان ایران اور سعودی عرب دونوں سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ دونوں برادر اسلامی ملکوں کو مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے لئے عدم مداخلت کا اصول اپنانا ہوگا۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ ایران کے ساتھ پاکستان نے ہاٹ لائن بحال کردی ہے۔ افغانستان اور ایران دونوں ہمسایہ ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ بھی ہماری ایجنسیوں کا مربوط رابطہ ہونا چاہئے۔ آپس میں بروقت معلومات کے تبادلے سے بھی سرحدوں پرپائی جانے والی کشیدگی ختم ہوسکتی ہے۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ بارڈر پر ہمیں مشترکہ طور پر ایک ایسا میکانزم بنانا چاہئے جس سے اسمگلنگ اور دہشت گردی پر قابو پایاجاسکے۔

.
تازہ ترین