• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک درویش نے دوسرے درویش کی رخصتی کی خبر دی۔ اس خبر میں صدمے کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار حیرت بھی تھی۔ پروفیسر ڈاکٹر جہانگیر تمیمی صاحب کی اس دنیا سے رخصتی کے بعد معلوم ہوا کہ وہ پروفیسر عبداللہ بھٹی صاحب کے ساتھ میرا ذکر خیر کیا کرتے تھے۔ پروفیسر عبداللہ بھٹی صاحب نے کافی عرصے بعد فون کیا اور پروفیسر ڈاکٹر جہانگیر تمیمی صاحب کے انتقال کی خبر دینے کے بعد کہا کہ وہ آپ کا بہت ذکر خیر کرتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ جہانگیر تمیمی صاحب کی بھٹی صاحب سے ملاقاتیں تھیں کیونکہ تمیمی صاحب بہت کم لوگوں کو ملتے تھے اور کئی ملاقاتیوں کو تو دروازے سے واپس لوٹا دیتے۔ اُنہیں دنیاوی باتوں میں دلچسپی نہیں تھی۔ میں بھی صرف تصوف پر گفتگو کیلئے اُن کے پاس حاضری دیا کرتا اور جب وہ مجھے بڑے تپاک سے رخصت کرتے تو آس پاس کے لوگ مجھے رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے۔ آج مجھے اس درویش خدامست کی ذات کے بارے میں نہیں بلکہ اُن کی علمی تحقیق کے متعلق کچھ عرض کرنا ہے کیونکہ اس علمی تحقیق کا صرف پاکستان نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کی نئی نسل تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔ تمیمی صاحب سے میری پہلی ملاقات 1987ء میں ہوئی جب میں پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ ابلاغیات کا طالب علم تھا۔ تمیمی صاحب یونیورسٹی کے سائوتھ ایشین اسٹڈیز سینٹر سے وابستہ تھے اور ہمیں پاکستان اسٹڈیز پڑھاتے تھے۔ وہ اکثر اوقات ہمیں نصابی کتب سے باہر کی باتیں سنایا کرتے اور پنجاب یونیورسٹی پر ایک مخصوص مذہبی مکتبہ فکر کے کنٹرول کو چیلنج کیا کرتے۔ میں عملی صحافت کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کر رہا تھا اور اُن کے ساتھ خوب بحث کیا کرتا۔ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد بھی اُن کے ساتھ تعلق برقرار رہا۔ اُنہوں نے تمام زندگی شادی نہ کی اور نیو کیمپس لاہور کے ایک ہاسٹل کے چھوٹے سے کمرے میں رہتے تھے۔ اُنہیں کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ بہت سال پہلے قیام پاکستان کے نظریاتی پس منظر کے بارے میں اُن کی کتاب ’’زوال سے اقبالؒ تک‘‘ پڑھی تو اُن کے مطالعے کی وسعت نے بہت متاثر کیا۔ اس کتاب میں تمیمی صاحب نے مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی کی عربی زبان میں لکھی گئی کتاب ’’ردائع اقبالؒ‘‘کے حوالے سے لکھا کہ مولانا نے 22نومبر 1937ءکو شاعر مشرق کے ساتھ لاہور میں ملاقات کی تو علامہ اقبالؒ نے مولانا سے کہا کہ ’’پاکستان ہی مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل ہے۔‘‘ قرارداد لاہور کی منظوری سے کم از کم اڑھائی سال قبل اقبالؒ کی زبان پر پاکستان کے نام کی گواہی تمیمی صاحب ڈھونڈ کر لائے۔ اسی کتاب میں اُنہوں نے شورش کاشمیری کے حوالے کچھ ایسے کانگریس نواز علماء کی بھی خبر لی جنہوں نے مسلم لیگ کی حمایت کے عوض قائد اعظمؒ سے بھاری رقم طلب کی اور رقم نہ ملنے پر حمایت سے انکار کر دیا۔ تمیمی صاحب کی اس کتاب پر میرے کالم نے بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ تمیمی صاحب کا اصل کام سکھ مسلم تعلقات کے بارے میں ان کی تحقیق تھی۔ ’’سکھ مسلم تعلقات‘‘ کے نام سے اُن کی ایک تحقیقی کتاب سائوتھ ایشین اسٹڈیز سینٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور نے 2007ء میں شائع کی اور اس کتاب میں جہانگیر تمیمی صاحب ایسے گمشدہ تاریخی حقائق ڈھونڈ لائے جن کو پڑھ کر پتا چلا کہ سکھوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنانے کے لئے کچھ جھوٹے قصے کہانیاں تاریخ کا حصہ بنا دیئے گئے۔ تاریخ کی بہت سی کتابوں میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سکھوں اور مسلمانوں کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ مغل بادشاہ جہانگیر کے ہاتھوں سکھوں کے پانچویں گورو ارجن دیو جی کا قتل تھا۔ جہانگیر تمیمی صاحب نے سکھوں کی مستند کتابوں کے حوالوں سے لکھا کہ گورو ارجن دیوجی کو شہنشاہ جہانگیر نے نہیں بلکہ لاہور کے دیوان چندو لال نے قتل کیا تھا۔ جب شہنشاہ جہانگیر کو پتا چلا کہ چندو لال نے سکھوں کے روحانی رہنما کو قتل کر دیا ہے تو اُس نے چندو لال کو گرفتار کر کے گورو ارجن دیو جی کے خاندان کے حوالے کر دیا جس نے چندو لال کو قتل کر دیا۔ جہانگیر تمیمی صاحب نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ اورنگ زیب عالمگیر پر سکھوں کے نویں گورو تیغ بہادر جی کے قتل کا الزام بھی غلط ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر اور تیغ بہادر جی کے درمیان تلخی ضرور تھی لیکن اُن کو اورنگ زیب نے قتل نہیں کیا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ سکھوں کے دسویں گورو گوبند سنگھ جی نے اورنگ زیب کے حق میں جو دعائیں کیں وہ ابھی تک سکھوں کے مذہبی لٹریچر میں موجود ہیں۔ جہانگیر تمیمی صاحب نے گورو تیغ بہادر کے قتل کا جھوٹا الزام اورنگ زیب عالمگیر پر لگانے والی ہستی کا بھی سراغ لگا لیا اور اپنی کتاب میں لکھا کہ 1893ء میں ایک انگریز مصنف میکس آرتھر میکالیف نے اپنی کتاب سکھ تاریخ میں یہ جھوٹا الزام شامل کر کے سکھوں اور مسلمانوں میں نفرت کے بیج بوئے۔ جہانگیر تمیمی صاحب نے سکھ مذہب کے بانی ’’بابا گورو نانک‘‘ پر تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک علیحدہ کتاب تصنیف کی جو 2014ء میں سائوتھ ایشین اسٹڈیز سینٹر نے شائع کی۔
اس کتاب میں اُنہوں نے بابا گورو نانک کے مسلم صوفیاء کے ساتھ تعلقات اور اسلام میں اُن کی دلچسپی کا تفصیل سے ذکر کیا۔ بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مزار پر بابا گورو نانک کی چھ سال تک حاضری اور پھر اُن کے سفر مکہ و مدینہ کی کہانی بھی تمیمی صاحب نے بیان کر دی۔ تمیمی صاحب نے بابا گورو نانک کے کلام میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے موجود عقیدت کو گورمکھی سے اُردو میں ترجمہ کر کے اپنی کتاب کا حصہ بنایا اور دنیا پر واضح کر دیا کہ سکھوں کا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے مختلف ہے لیکن بابا گورونانک اسلام کے دشمن نہیں تھے لہٰذا سکھوں اور مسلمانوں میں نفرت بے بنیاد ہے۔ شاید اسی لئے علامہ اقبالؒ نے بابا گورونانک کے بارے میں کہا تھا؎
پھر اٹھی آخر صدا، توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
اقبالؒ نے ’’بانگ درا‘‘ سے بابا گورونانک کے بارے میں تین اشعار حذف کر دیئے تھے لیکن تمیمی صاحب یہ اشعار بھی ڈھونڈ لائے اور بابا گورونانک پر اپنی کتاب میں شامل کر دیئے۔ جہانگیر تمیمی صاحب کی ایک اور شاہکار تصنیف ’’جنوبی ایشیا میں مسلم موسیقی‘‘ ہے لیکن میں اس تحریک کو سکھ مسلم تعلقات کے بارے میں تمیمی صاحب کی تحقیق تک محدود رکھوں گا۔ تمیمی صاحب کی ان کتابوں کو انگریزی اور گورمکھی میں ترجمہ کیا جائے تو سکھوں کو پتا چلے گا کہ 1947ء میں قائد اعظمؒ انہیں وہ کچھ دینے کے لئے تیار تھے جو سکھوں کو آج کے ہندوستان میں کبھی نہیں ملے گا لہٰذا سکھوں اور مسلمانوں کو دوست بن کر رہنا چاہئے۔ پروفیسر ڈاکٹر جہانگیر تمیمی کو سکھوں اور مسلمانوں کے ایک محسن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

.
تازہ ترین