• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن ِ عزیز میں ان دنوں انصاف اور احتساب کی بہت تعریفیں کی جا رہی ہیں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے احتسابی ادارے JIT میں پیش ہو کر تاریخ رقم کر دی ہے جبکہ نا قدین کا کہنا ہے کہ اس پیشی میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ حکمرانوں کی عدالتوں کے سامنے پیشی کوئی ایسا غیرمعمولی واقعہ نہیں ہے جسے تاریخ رقم کرنا قرار دیا جائے۔ تاریخ تو ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جبکہ مہذب دنیا کی عصری سیاست میں بھی اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں ۔ اگر غیرجانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو خالص پاکستانی سیاست کے تناظر میں یہ بلاشبہ ایک غیر معمولی پیشی تھی۔ جہاں تک محترمہ بے نظیر بھٹو یا ان کے والد مرحوم کی عدالتوں میں پیشیوں کی بحث ہے، یہ تب کی باتیں ہیں جب وہ اپنی ان کلیدی ذمہ داریوں سے ہٹائے جا چکے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ تجزیہ بھی کرنا چاہئے کہ وطنِ عزیز میں کیا انصاف کا دہرا معیار نہیں ہے؟
قیام پاکستان کے چند برسوں بعد ہی سے نظریہ ضرورت کا آسیب ہمارے نظام انصاف پر مسلط چلا آرہا تھا جس کے باعث آمرانہ حکومتوں کے جمہوریت کش اور آئین شکن اقدامات کو اعلیٰ عدالتوں سے باآسانی سند جواز مل جایا کرتی تھی۔ فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں بندوق کے بل پر آئین کی منسوخی اور معطلی کے اقدامات جائز قرار پانے کے فیصلے معمول کا حصہ تھے‘‘ ہم عرض کرتے ہیں کہ یہ نام نہاد دعویٰ حقائق کی کسوٹی میں غلط ہے اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ لفاظی کی حد تک ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماشاء اللہ سبحان اللہ ہمارے نظامِ انصاف کی کیا بات ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہاں آج بھی تگڑے کا انصاف ہے اور تگڑے سے مراد وہ ہے جس کے ہاتھ میں لٹھ ہے ۔ سیانے ٹھیک کہتے ہیں کہ یہاں آج بھی بھینس اسی کی ہے جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے..... رہ گئی عوامی ووٹ کی طاقت؟ تو وہ آج بھی اتنی ہی ہے جتنی اس ملک میں عوام کی لٹھ برداروں کے بالمقابل قدرومنزلت ہے۔ اسی بات کا تو رونا ہے یہاں ’’عوام طاقت کا سر چشمہ ہیں‘‘ جیسے الفاظ بلاشبہ نعرے کی حد تک ضرور موجود ہیں لیکن بالفعل طاقت کا سر چشمہ کہیں اور ہے مگر یہاں اپنے مخصوص مفادات کی خاطر سیدھی اور صاف شفاف باتوں کو بھی الجھاؤ اور کنفیوژن میں ڈال دیا جاتا ہے۔
وطن عزیز کے اہل دانش کی خدمت میں ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا آئین شکنی سے بڑی بھی کوئی کرپشن ہوتی ہے؟ بیس کروڑ عوام کے مینڈیٹ کو لوٹنے سے بھی بڑی کیا کوئی ڈکیتی ہو سکتی ہے؟ کیا اس کی سزا واضح طور پر کتابِ آئین میں تحریر نہیں ہے؟ ذرا اپنے ملک کی70 سالہ تاریخ کا ایک مرتبہ جائزہ تو لے لو۔ یہاں تو ملک توڑنے والوں کے خلاف بھی کوئی عدالت لگی نہ JIT بیٹھی۔ سزا تو دور کی بات ہے۔ جو مر گئے سو مر گئے ہم پوچھتے ہیں جو زندہ ہیں قانون نے ان کا کیا بگاڑ لیا ہے؟ چوہدری طاقت خاں کے بالمقابل اس بیچاری عظمیٰ بی بی کی بے بسی تو ملاحظہ کیجئے کہ چٹھیاں ڈال کر بلاتی ہے اور محبوب پہلے بخار کا بہانہ ڈال کے صحت افزا مقام پر ڈیرے ڈال لیتا ہے مابعد کمر درد کا چکمہ دے کر انگلی کروا جاتا ہے۔ محترمہ عظمیٰ بی بی کا غصہ قابلِ فہم ہے جو چوہدریوں کے لڑکے پر نہیں نکل سکا تو بیچارے کمیوں کا نمائندہ حاضر ہے۔ قہر درویش بر جان درویش تو پہلے وقتوں میں ہوتا تھا امتداد زمانہ یا گردشِ ایام کے ساتھ اب یہ بر جان نمائندہ فقراء و مساکین ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ یہاں مسئلہ کرپشن کا نہیں ہے مسئلہ عوامی مینڈیٹ کی توہین کرتے ہوئے اسے کمزور سے کمزور تر بنانے کا ہے۔ پہلے دھاندلی کے الزامات سے جمہوریت کی جگ ہنسائی و بے توقیری روا رکھی گئی جب اس سے بات نہیں بنی تو جس طرح کہتے ہیں کہ ماس خورے کو ماس مل ہی جاتا ہے پاناما لیکس کے نام سے کھیلنے کے لئے دوسرا کھیل مل گیا۔ ناقدین کا تجزیہ یہ ہے کہ اس کھیل تماشے میں کئی چھوٹی دکانیں ہی نہیں چل رہی ہیں بڑی دکان کا قبضہ بھی مل سکتا ہے۔ ویسے بھی ان دنوں ہمارے دیش میں قبضہ گروپوں کی بھرمار ہے اور قبضے کے لئے چاہے وہ جائز ہو ناجائز لاٹھی کا رعب ضروری ہوتا ہے، سو ہر کوئی لاٹھی والے کے ساتھ اپنی وابستگی کے لئے پریشان ہے۔
وزیراعظم کی JIT میں پیشی سے اگر تاریخ رقم نہیں بھی ہوئی تو بھی تاریخ دہرائی ضرور گئی ہے ۔ وطنِ عزیز کے تمام سنجیدہ طبقات یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہاں آخر ایسی پیشیاں وزرائے اعظموں کی قسمتوں میں کیوں لکھی جاتی ہیں؟ ماضی کے ڈکٹیٹروں پریہ نوازشات کیوں نہیں ہوتیں؟
یہاں اگر گولیاں ماری گئیں تو وزرائے اعظموں کو، جیلوں میں ڈالے گئے تو وزرائے اعظم، ملک بدر ہو تو وزیراعظم، پھانسی پر چڑھایا گیا تو وزیراعظم ۔ دیگر حکمران جو عوامی مینڈیٹ کو روند کر بر سراقتدار آتے ہیں کیا وہ سب دودھ اور زم زم کے نہائے ہوتے ہیں؟ وطنِ عزیز میں کیا کوئی ایسا ادارہ ہے جو طاقتور طبقے کی جائیدادوں اور مال و دولت کا احتساب کرے۔ میڈیا ان طاقتوروں کی کرپشن اور لوٹ مار پر کھلے مباحثے منعقد کروا سکے؟ ہماری نظر میں اصل ایشو کرپشن یا احتساب کا نہیں ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کوئی بھی ایسا منتخب لیڈر ہضم نہیں ہو سکتا جو عوامی مینڈیٹ کی طاقت سے ملک کے پورے نظام کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کرے یا ایسی خواہش ذہن میں پالے اس کے بالمقابل ہمیں ایسا کمزور سیاسی لیڈر چاہئے جو کٹھ پتلی کا رول بخوبی نبھانے پر تیار ہو ۔

 

.

تازہ ترین