• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو تم کو ہو پسند وہی بات کریں گے
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات نے کہا ہے:جے آئی ٹی پر شریف فیملی کے تحفظات دور کئے بغیر اگر کوئی فیصلہ آیا تو نامکمل ہو گا۔ بہ الفاظ دیگر وزیر موصوف یہ کہنا چاہتی ہیں کہ عدالت عظمیٰ شریف خاندان سے یہ کہے؎
جو تم کو ہو پسند وہی بات کہیں گے
تم دن کو اگر رات کہو رات کہیں گے
یہ کوئی انوکھی بات نہیں ایک وزیر کو اپنے وزیراعظم اور اس کے خاندان بارے ایسے ہی خیالات کا اظہار کرنا چاہئے، بس یہ بات سمجھ سے بالا ہے کہ کیا ملک کی سب سے بڑی عدالت کسی بھی مدعا علیہ کی توقعات کے مطابق جو فیصلہ دے صرف وہ ہی مکمل ہو گا، مکمل اور نامکمل میں اقرار و انکار جتنا فرق ہوتا ہے بہرحال وہ آکسفورڈ کی پڑھی ہوئی ہیں وہ زیادہ بہتر سمجھتی ہیں کہ انہیں سپریم کورٹ کے کسی ممکنہ فیصلے کے بارے کیا کہنا چاہئے اور کیا نہیں کہنا چاہئے، مگر محترمہ کی بات میں ایک ہلکی پھلکی سی نسوانی دھمکی ہے، جس بات میں اگر یا ورنہ آ جائے اس کا حلیہ بدل جاتا ہے، بہرحال مجبوری پھر مجبوری ہے، سپریم کورٹ چاروں طرف سے سپریم کمینٹس سن رہی ہے مگر اس نے فیصلہ آئین و قانون کے مطابق دینا ہے، کمینٹس کو پیش نظر نہیں رکھنا، جب ہم نے ایک عدالت کو سپریم مان لیا تو پھر فیصلہ بھی سپریم ماننا ہو گا، اسے نامکمل کہنے کی پیشگی جرأت رندانہ بھی نہیں کرنی چاہئے، فیصلے مکمل ہی ہوتے ہیں اسی لئے تو فیصلے کہلاتے ہیں، کیونکہ وہ قولِ فیصل ہوتے ہیں، ہماری دعا ہے کہ شریف خاندان آزمائش سے سرخرو ہو کر نکلے۔
٭٭٭٭
کرکٹ، پاک بھارت ملن کا ذریعہ
کھیل اور جنگ دو متضاد چیزیں ہیں، اگر دونوں ایک ہیں تو یہ جنگ ہے کرکٹ نہیں، اور لڑائی کو طبعاً کوئی بھی انسان انجوائے نہیں کر سکتا، دو دشمن بن جانے والے خاندانوں کو ان کے گلی میں اکٹھے کھیلتے بچے دوست بنا دیتے ہیں پاکستان بھارت نے کیوں کرکٹ کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیا ہے، کہ دونوں ملکوں کا بلڈ پریشر پیک پر ہے، جب یہ کالم پڑھا جا رہا ہو گا میچ تو ہو چکا ہو گا، مگر اس کے مابعد اثرات کافی عرصے تک باعث اذیت یا فرحت رہیں گے، ٹھیک ہے کھلاڑیوں اور عوام میں مقابلے کی سپرٹ رہے مگر کوئی جنگ جیتنے کا تاثر جائز نہیں، کھیل کے میدان میں صرف اچھے کھیل سے لطف اندوز ہونا چاہئے، چاہے وہ دونوں ٹیموں میں سے کوئی بھی پیش کرے، اگر کھیل ایک حقیقت ہوتا تو یہ ہرگز کہا جاتا یہ زندگی ہے کوئی کھیل نہیں، کھیل ریلیکسنٹ ہے، ٹینشن نہیں دیتا، اور اگر اذیت کا باعث ہے تو کھیل نہیں ایک جنگ ہے جو دونوں ملکوں کے مابین ان کے وجود میں آنے کے زمانے سے جاری ہے، اگر دونوں ہمسائے ایک دوسرے کیلئے کرکٹ کے دروازے کھول دیں تو اقتدار پرستوں کی ہوس ناک سیاست ختم اور مسئلہ کشمیر بھی حل ہو سکتا ہے، دوریاں بڑھانا، نزدیکیاں گھٹانا پیار کا دشمن ہے، اگر ہمسایوں میں پیار نہ ہو تو وہ ہمسائے نہیں رہتے صرف سائے رہ جاتے ہیں، اگر جیت ہوئی یا ہار یہ کرکٹ کی ہو گی پاکستان بھارت کی نہیں، مسلمان ادھر بھی رہتے ہیں ادھر بھی، ہندو ادھر بھی ہیں ادھر بھی، سکھ یہاں بھی ہیں وہاں بھی، پھر لڑائی کیسی؟ نفرتیں کیوں؟ مذہبی انتہاء پسندی کس لئے، اگر کوئی مسئلہ ہے تو حل کریں کہ ٹینشن ختم ہو دونوں طرف غربت محرومی سے نجات ملے، لڑو یا کھیلو دونوں اختیار کر اپنی بھلائی کا گلا گھونٹنا ہے۔
٭٭٭٭
غم، خوشی اور ماں باپ
جیسے تعمیر مشکل تخریب آسان ویسے ہی غم کا حصول آسان، خوشی کا ملنا کبھی کبھی، بلکہ یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ خوشی، غم کی عارضی غیر حاضری کا نام ہے اگر حسن اتفاق سے خوشی مل جائے تو اس کے ایک ایک لمحے کو صدی بنا کر اس سے لطف اٹھائو، کہ غم کے شب و روز کاٹے نہ کٹیں، غمکدہ جہاں میں مسرت ملنا معجزہ ہے جس کی کرشماتی لذت سے محظوظ ہونا نعمت ہے، اکثر غموں کو منفی سوچ جنم دیتی ہے، آپ ان کی ماں مار دیں، دھرتی ماں گلے لگا لے گی عالمی ’’یوم والد‘‘ بھی گزر گیا، مگر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اکثر ماں یا باپ کبھی کبھی ڈبل رول بھی کرتے ہیں، ایسی کئی مثالیں ہیں، مگر خدا نہ کرے کہ ایسی نوبت آئے، جنگ میگزین کے سرورق پر ایک خاندان کی دیدہ زیب تصویر اور نیچے لکھے اس جملے نے بہت متاثر کیا ’’باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں، اور ماں گھر کی جنت‘‘ ظاہر ہے درخت کسی جنت کا لازمی حصہ ہوتے ہیں، کیونکہ وہ سایہ دار ہوتے ہیں اور پھل ان کو ہی لگتا ہے، مگر زمین چمن (ماں) ہی درخت اگاتی پھل لگاتی ہے، ٹھیک ہے کہ باپ درخت ہوتے ہیں لیکن مائیں بھی گملا نہیں ہوتیں کہ جب چاہا اٹھا کر کہیں بھی رکھ لیا یا اس کی جگہ کوئی اور گملا رکھ دیا، والدین سے پیار، ان کی عزت کرنا اولاد کا فرض ہے، بالخصوص جب بچے جوان اور ماں باپ بزرگ ہو جائیںتو پھر اپنے بچپن کا ادھار بچوں کو چکانا چاہئے، غم ہو یا خوشی دونوں کا تعلق والدین کے باہمی تعلق سے گہرا ہوتا ہے، ان میں پیار ہو تو بچوں کو ورثے میں ملتا ہے، اور یوں پیار آگے چلتا جاتا ہے صدقہ جاریہ کی صورت، جن کے والدین زندہ ہیں اور ماں باپ ان کی توجہ سے محروم، وہ اولاد خوش بخت نہیں، سب کچھ ملتا ہے اگر ٹوٹ جائے لیکن ماں باپ نہیں ملتے اگر روٹھ جائیں۔
کون کہتا ہے کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
....Oشیخ رشید:شیر پنجرے کی طرف جا رہا ہے،
شکر کریں آپ کو نوالہ نہیں بنایا، ورنہ شیر تو شیر ہوتا ہے کوئی انسان نہیں ہوتا،
....Oمشرف:دانیال عزیز وزارت لینے کیلئے چمچہ گیری کر رہا ہے،
وزارت کی خواہش، آئین اور قانون کے خلاف نہیں۔
....Oوزیراعظم فیملی کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب روانہ ہو گئے، آخری عشرہ مدینہ منورہ میں گزاریں گے جہاں سے وہ طبی معائنہ کیلئے لندن بھی جائیں گے اور 30جون کو وطن واپس آئیں گے۔
ساغرؔ صدیقی کا ایک شعر ہے؎
آئو اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
کون کہتا ہے کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
....Oعزیز الرحمٰن چن (پی پی):جدہ بھاگنے والے گریبان میں جھانکیں۔
آپ کا گریبان کہاں گیا؟
....Oحنا پرویز بٹ:(ن لیگ):یہاں کوئی مقدس گائے نہیں،
چراغ تلے اندھیرا؟

 

.

تازہ ترین