• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افطار میں کچھ دیر باقی تھی اور پیاس کی وجہ سے میری زبان خشک تھی۔ خشک زبان کے ساتھ گفتگو پر طبیعت آمادہ نہ تھی لیکن مسلم لیگ (ن) کے ایک درجن ارکان قومی اسمبلی نے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ کر رکھی تھی۔ میں چھوٹے چھوٹے جملوں سے انہیں مطمئن کرنےکی ناکام کوشش میں مصروف تھا۔ اسلام آباد کی منسٹرز کالونی میں ایک وزیر کے گھر افطار پر اکٹھے ہونے والے ان مرد و خواتین میں کل ملا کر تین وزیر تھے اور میری نظر میں یہ سب کے سب وزیر اعظم نواز شریف کے وفادار ترین ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو یہ فکر نہ تھی کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کیا کررہی ہے؟ حسین نواز کی تصویر کس نے لیک کی؟ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرے گی؟ نواز شریف حکومت میں رہیں گے یا نہیں رہیں گے؟ ان سب کے سوالات مسلم لیگ(ن) کے مستقبل سے وابستہ تھے۔ مجھ سے پوچھا جارہا تھا کہ مسلم لیگ (ن)کی قیادت پارٹی کو منظم کرنے کی بجائے میڈیا میں جنگ پر توجہ کیوں دے رہی ہے؟ پارٹی منظم کئے بغیر آئندہ انتخابات میں کامیابی کیسے ممکن ہوگی؟ میرا جواب بڑا سادہ تھا۔ یہ تو آپ کو وزیر اعظم صاحب سے پوچھنا چاہئے۔ یہ سن کر ایک ایم این اے نے کہا کہ وزیر اعظم صاحب نہ اسمبلی میں آتے ہیں نہ ہمیں ملتے ہیں ہم ان سے کیا پوچھیں؟ میں نے جواب طلب نظروں سے وہاں موجود ایک پاور فل وزیر کی طرف دیکھا لیکن وزیر صاحب نے بڑی بے بسی سے پنجابی میں کہا کہ ہماری پارٹی پر ق لیگ والوں کا قبضہ ہوچکا ہے وہ اتنی زور زور سے میڈیا پر ہمارے لیڈر کی حمایت کرتے ہیں کہ کبھی کبھی شک گزرتا ہے کہ نواز شریف کو چھوڑ کر مشرف کی طرف وہ نہیں بلکہ ہم بھاگے تھے، لوٹے وہ نہیں بلکہ ہم ہیں۔ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی۔ وزیر صاحب نے میرے قہقہے کو نظر انداز کیا اور اپنی سنجیدگی میں مزید ا ضافہ کرتے ہوئے کہا کہ یار ہم بڑے پریشان ہیں، ہمیں کچھ پتا نہیں کہ ہماری پارٹی لائن کیا ہے؟ ق لیگ سے آنے والے ہمیں لفٹ نہیں کراتے نہ ہم انہیں لفٹ کراتےہیں جو لوگ خود کٹھ پتلیاں تھے اب وہ کٹھ پتلیوں کے خلاف شور مچارہے ہیں، آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ وزیر اعظم نے جے ا ٓئی ٹی میں پیشی کے بعد کن کٹھ پتلیوں کی طرف اشارہ کیا تھا؟ میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا کہ شاید وزیر اعظم کا اشارہ عمران خان کی طرف تھا۔ یہ سن کر محفل میں موجود سب مرد و خواتین نے طنزیہ انداز میں قہقہوں کے ذریعہ میرا جواب مستردکردیا۔ ایک صاحب نے میری جرأت و ہمت کوللکارتے ہوئے کہا کہ تسی شیر بنو جی شیر۔ اس کمرے میں ہونے والی گفتگو باہر نہیں جائے گی۔ وہ بولے ہمیں یاد ہے پچھلے سال مئی میں جب ہماری پارٹی کے کچھ سینئر لوگوں نے نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ آپ لندن سے واپس پاکستان نہ آئیں تو آپ نے لندن میں انہیں کہا تھا کہ پاکستان واپس ضرور جائیں۔ آپ کے اس مشورے نےراحیل شریف کو بہت ناراض کردیا پھر آپ کے ساتھ جو ہوا وہ ہمیں پتا ہے لیکن ہمیں جمہوریت کے ساتھ آپ کی کمٹمنٹ پر کوئی شک نہیں آج کل آپ کافی محتاط نظر آتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ کھل کر بات کریں۔میں نے کہا کہ افطار کرلیں پھر بات کرتے ہیں۔ اس دوران افطار کا وقت ہوگیا۔ افطار کے دوران ایک وزیر نے میرے ساتھ سرگوشیاں شروع کردیں۔ان کی سرگوشیاں سب سن رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ساڈی پارٹی تے مافیا دا قبضہ ہوگیا اے۔ یہ سن کر مجھے جھٹکا لگا۔ وزیر کو جھٹکا محسوس ہوا تو انہوں نے آواز کچھ مدہم کی اور کہا کہ وزیر اعظم ہائوس جائو تو وہاں وزیر اعظم نہیں ملتے بلکہ خوش نما چہروں والا ایک خوش لباس مافیا ملتا ہے جو آئی فون اور ٹیلی فون پر الیکٹرونک میڈیا کو کنٹرول کررہا ہوتا ہے۔ یہ لوگ میڈیا کے بڑے بڑے ناموں کو ہدایات دے رہے ہوتے ہیں اور بڑے بڑے نام ہدایات لے رہے ہوتے ہیں، پھر کچھ ہی دیر میں کوئی ہیڈ لائن ، کوئی بریکنگ نیوز یا ریڈ الرٹ ٹی وی اسکرین پر آتا ہے اور کوئی بڑا نا م جمہوریت کا سپاہی بن کر جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوتا ہے تو ہماری مافیا کے لوگ فاتحانہ انداز میں ہمیں دیکھتے ہیں اور ہم ان کی طاقت سے مرعوب ہو کر کھسیانی بلی بن جاتے ہیں اور کھمبے کی بجائے اپنے ناخن نوچتے ہوئے وہاں سے نو دو گیارہ ہوجاتے ہیں۔ وزیر صاحب کا خیال تھا کہ وہ یہ کارروائی صرف مجھے سنارہے ہیں لیکن کچھ ہی دیر میں پوری محفل نے اپنے اس مبینہ مافیا کے بارے میں اپنے اپنے تجربات بیان کرنا شروع کردئیے۔ میں نے ان منتخب ارکان اسمبلی کی بے چینی کو کم کرنے کے لئے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، جب آپ کے منتخب وزیر اعظم سے کہا گیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں یا طویل رخصت پر پاکستان سے باہر چلا جائے تو میں نے اس کی شدید مخالفت کی تھی کیونکہ یہ غیر آئینی تھا۔ اس وقت ایک آئینی ادارہ کسی دوسرے ادارے کا احتساب نہیں کررہابلکہ ایک خاندان کا احتساب کررہا ہے۔ اس احتساب کے لئے خاندان کے کسی فرد کو جیل میں نہیں ڈالا گیا لیکن میڈیا پر اتنا شور ڈلوایا گیا ہے کہ لگتا ہے کہ جیل میں گیارہ سال آصف زرداری نے نہیں حسین نواز نے گزارے ہیں، اگر نواز شریف کی درخواست پر سپریم کورٹ ایک منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دے سکتی ہے تو عمران خان کی درخواست پر ایسا فیصلہ نواز شریف کے خلاف کیوں نہیں آسکتا؟پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم بدل سکتا ہے تو آپ کا کیوں نہیں؟
ایک خاتون ایم این اے نے کہا کہ آپ کی سب باتیں ٹھیک ہیں لیکن آپ یہ تو مانیں کہ پاکستان میں احتساب صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے دوسروں کا نہیں۔ میں نے جواب میں کہا کہ آپ نے درست فرمایا لیکن سیاستدان اپنی غلطیوں سے سبق کیوںنہیں سیکھتے؟ پارٹیوں میں جمہوریت کیوں نہیں لاتے؟ پارٹیوں کو مافیا کیوں بنادیتے ہیں؟جب سیاسی پارٹیاں مافیا بن جاتی ہیں تو کچھ ادارے بھی مافیا بن جاتے ہیں۔ 1988میں جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی تو فدا محمد خان اور نواز شریف نے ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا۔ پھر ڈکٹیٹر کی موت کے بعد کچھ جرنیلوں نے مذہبی جماعتوں اور مسلم لیگ(ن) کا اتحاد بنایا جسے پیپلز پارٹی نے مافیا قرار دیا۔ اس مافیا کے مقابلے کے لئے پیپلز پارٹی بھی مافیا بن گئی۔ پھر ان دو مافیاز کے مقابلے کے لئے ایک نئی سیاسی قوت سامنے آئی لیکن مافیا نے اس پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ یہ مافیاز کی آپس کی جنگ ہے اس کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں ہے، جب جمہوریت کو خطرہ درپیش ہوا تو یہ مافیا والے غائب ہوجائیں گے، بھاگ جائیں گے لیکن آپ اور ہم جمہوریت کی جنگ لڑیں گے۔ سب میری باتیں غور سے سن رہے تھے کہ ایک وزیر کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے فون سنا اور کہا کہ جی ابھی آتا ہوں۔ میں نے پوچھا کدھر جارہے ہو؟ وزیر نے کہا مافیا نے بلایا ہے۔

 

.

تازہ ترین