• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رحمٰن ملک جے آئی ٹی ذاتی حیثیت میں گئے تھے،نیئر بخاری

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ) پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر حسین بخاری نے کہا ہے کہ رحمن ملک جے آئی ٹی میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرنے نہیں بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں گئے تھے، مجھے علم نہیں رحمن ملک نے جے آئی ٹی کے سامنے کیا شواہد پیش کیے ،پاناما کیس کا فیصلہ جے آئی ٹی نہیں سپریم کورٹ کرے گی۔

وہ جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں مسلم لیگ ن کے رہنما آصف کرمانی،سینئر صحافی احمد نورانی اور عمران وسیم بھی شریک تھے ،پروگرام میں تحریک انصاف اور عمران خان کیخلاف ا لیکشن کمیشن میں کیسز کے حوالے سے پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر اور نمائندہ جیو نیوز آسیہ انصرسے بھی گفتگو کی گئی۔

آصف کرمانی نے کہا کہ جے آئی ٹی کا معیار اس حد تک گرگیا ہے کہ وہ رحمن ملک جیسے این آر او زدہ شخص کی معاونت چاہتی ہے جس کا نام بھی پاناما میں اور اس سے متعلق سپریم کورٹ کی رولنگ موجود ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں ہے۔

احمد نورانی نے کہا کہ رحمن ملک کی رپورٹ میں مجھے بہت جان نظر آتی ہے، احتساب ضرور کیا جائے لیکن جمہوری حکومتیں گرانے کیلئے احتساب نہیں ہونا چاہئے، المیہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی تحقیقات نہیں کررہی بلکہ کسی حصار میں آگئی اور ایک سازش ہورہی ہے۔اکبر ایس بابر نے کہا کہ میرے اختلافات کی بنیاد پارٹی کے اندر کرپشن تھی، الیکشن کمیشن کو جے آئی ٹی مقرر کیا جائے گا تو خوفناک حقیقت سامنے آئے گی، غیرملکی فنڈنگ میں اربوں روپے کی رقم ہے جس کے ذرائع بہت خوفناک ہوسکتے ہیں۔

نیئر حسین بخاری نے مزید کہا کہ رحمن ملک جے آئی ٹی میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرنے نہیں بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں گئے تھے، رحمن ملک نے ایف آئی اے میں سرکاری ملازم ہوتے ہوئے جو مواد جمع کیا تھا وہ جے آئی ٹی کے سامنے رکھا ہے، یہ معاملہ جے آئی ٹی اور رحمن ملک کے درمیان ہے،رحمن ملک بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور وفاقی وزیر بھی رہے تو اس حوالے سے ان کی وابستگی پارٹی کے ساتھ ہے۔

بیس اپریل کے عدالتی فیصلے میں نواز شریف اور ان کے بیٹوں کو خود کو کلیئر کرنے کا موقع دیا گیا۔نیئر حسین بخاری نے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس نیب کورٹ میں تھا جب نواز شریف اور ان کی فیملی ڈیل کے تحت اس ملک سے چلے گئے، اس کے بعد نیب نے اس کیس کو ملتوی کردیا تھا ، نیب کی طرف سے کیس ملتوی کرنے کے بعد پراسکیوٹرز یا کورٹ کو ازخود یہ کیس اٹھانا چاہئے تھا،اگر رحمن ملک صادق اور امین نہیں تو پھر کیسے رکن پارلیمنٹ ہیں۔

آصف کرمانی نے کہا کہ رحمن کا نام بھی پاناما میں ہے،پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کا نام نہیں ہے۔آصف زرداری نے پہلے سرے محل سے انکار کیا لیکن پھر قبول کرلیا، حدیبیہ پیپر ملز کیس نجی اور کاروباری لین دین تھا، پیپلز پارٹی کے دور میں انتقامی طور پر تمام بینکوں کو ہدایات دی گئیں کہ ان کی فنانشل لائنز کو ختم کردیا جائے، حدیبیہ پیپر ملز کو ہائیکورٹ نے ڈس مس کیا، نیب کو اپیل میں جانا چاہئے تھا لیکن وہ اس لئے اپیل میں نہیں گئے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اس میں سے کچھ نہیں نکلے گا، تمام تر حکومتی دباؤ کے باوجود حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات سے کچھ نہیں نکلا، نواز شریف کے بدترین دشمنوں میں سے ایک پرویز مشرف نے رحمن ملک کی تحقیقات کو مسترد کردیا تھا،جے آئی ٹی پرویز مشرف سمیت نوازشریف کے تمام مخالفین کو بلا کر اپنی تسلی کرلے۔

احمد نورانی نے کہا کہ رحمن ملک کا نام اگر پاناما لیکس میں ہے اس سے ان کی ساکھ کم نہیں ہوئی ہے، رحمن ملک نے بہت مضبوط کیس بنایا ہوا ہے، یہ واقعات محترمہ بینظیر بھٹوکے 93ء سے 96ء کے دور میں ہوئے تھے، 20فروری 1995ء کو التوفیق ٹرسٹ سے یہ ڈیل سائن ہوئی تھی ، اس وقت پاکستان سے برطانیہ میں جو پیسہ گیا اور اس میں 31 ملین ڈالر کا قرضہ آنا اور پھر پاکستان آنا وہ مانیٹر ہوگیا تھا، رحمن ملک نے پیسوں کی اس ترسیل کا ایک ایک چیک اور رسید ، بینکوں میں کن کن لوگوں کے نام پر اکاؤنٹ کھلے جو جعلی لوگ تھے وہ سب تفصیلات اکٹھی کیں۔

احمد نورانی کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے آج تک نہ اس کیس کی تفتیش ہو سکی اور نہ ہی عدالت میں چل سکا کیونکہ 1997ء میں نواز شریف کی حکومت آگئی تھی، مشرف دور میں اس کیس کی تحقیقات مکمل ہوئی اور ریفرنس فائل ہوگیا لیکن دسمبر 2000ء میں مشرف سے معاہدے کے بعد نواز شریف باہر چلے گئے، 2008ء میں جب نواز شریف واپس وطن آئے تو حکومت میں آگئے، پیپلز پارٹی کی حکومت اس وقت شریف برادران کے ساتھ فرینڈلی تھی، نیب نے بھی کیس کو عدالت کے اندر سپورٹ کیا اور فرینڈلی پراسیکیوشن کی، نواز شریف نے واپس آکر اپنی پراپرٹی واپس لینے اور اس کیخلاف اپیل کی، نیب نے لکھ کر دیا کہ ہمارے ادارے نے پہلے غلط کیا، انہوں نے اپنے دوست چوہدری قمر الزمان کو چیئرمین نیب لگایا جنہوں نے وہاں کیس کا دفاع نہیں کیا، ریفری جج نے بھی مارچ2014ء میں قمر الزماں کے آنے کے بعد یہ فیصلہ دیا تھا۔ احمد نورانی کا کہنا تھا کہ ادارے مضبوط نہیں اسی لئے احتساب کا عمل مکمل نہیں ہوتا ہے، جمہوری حکومتیں گرانے کیلئے احتساب نہیں ہونا چاہئے۔

تازہ ترین