• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اظہارِ خیا ل اور حدود و قیود...خصوصی مراسلہ…سید مجتبیٰ نقوی

ہمیشہ خوبصورت اور اچھی بات کرو(القران )
آزادی انسان کا بنیادی حق ہے انسان آزاد فطرت کے ساتھ پیدا ہوا ہے آزادی اور حریت پسندی کے لئے انسان ازل سے ہی جدوجہد کرتا رہا لیکن ہیلے بہانوں سے اسکی آزادی اور حقوق کو پامال کیا جا تا رہا ۔ کبھی معاشی ،سیاسی ،سماجی ،یا ثقافتی طور پر اس کی آزادی سلب ہوتی رہی اور انسانیت مختلف شکلوں میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جاتی رہی ۔اشراکیت ،سرمایہ دارانہ نظام اور اسی طرح کے مختلف نظاموں کے تحت انسان کو غلام بنایا جا رہا ہے۔یہ ایک ایسی لعنت اور ایسا نا پسندیدہ عمل ہے جو اللہ کو بھی پسند نہیں۔اللہ کی طرف سے بھیجے گئے انبیاء اکرام بھی انسان کو آزادی دلانے کے لئے ہی جدوجہد کرتے رہے۔حضرت موسیٰؑ وہارون ؑ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے ،حضرت عیسیٰ کو قاہنو ں سے نجات کے لئے،داودؑ کو جالوت کی غلامی اور نبی اکرم حضرت محمدﷺ کو جہالت اور بت پرستوں سے آزادی کے لئے بھیجا گیا۔توہم پرستی سے نجات اور فرعونیت سے نجات کے لئےآج بھی انسان ترس رہا ہے اور مختلف شعبوں میں تقسیم ہے۔آزادی رائے انسان کا بنیادی حق ہے مگر اس پر حدود و قیود ہیں۔انسان کو مادر پدر آزادی نہیں دی جا سکتی وہ اپنی معاشی ،سماجی ،سیاسی اور مذہبی اقدار کا پابند ہے اور یہ پابندی اس کی حدود متعین کرتی ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آزادی اظہار کا حق اسے سرے سے ہی نہ دیا جائے ہاں ایک شخص کو اتنی ہی آزادی حاصل ہونی چاہئے کہ اس کی آزادی کسی کی دل آزاری اور نقصان کا سبب نہ بنے۔ یعنی انسان کو چھڑی گھمانے کی آزادی ہے لیکن اس حد تک کہ یہ کسی کی ناک سے نہ ٹکرائے اور اگر ایسا ہو تو اس کی آزادی سلب کی جا سکتی ہے۔حدود و قیود کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سچ کو دبا دیا جائے انصاف کا گلہ گھونٹ دیا جائے اور سچ بات کی گواہی نا دی جائے اگر ایسا ہو تومعاشرے میں امن و اعتدال قائم نہیں رہ سکتا۔بس یہ ہی اصول ابتدائی ہیںلیکن فی زمانہ جہاں قومیں اور حکومتیں تشکیل پاتی ہیں وہاں اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ آزادی اظہار کے تناظر میں اپنی قوم،ملک اور مذہب کی جب بات آئے تو آزادیِ اظہار میں کچھ حدود و قیود کا خیال رکھنا جائے اور یہ ساری دنیا میں ہو رہا ہے۔آج پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا آزاد ہے جہاں لوگ فیس بک ،ٹویٹر ،اور واٹس ایپ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب یہی سوشل میڈیا کچھ ایسے عناصرکے ہتھے چڑھ گیا ہے جو اس کو صرف اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور ایسا اکثر سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے کیا جا رہا ہے جو اپنے مخالفین کے خلاف ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں کہ پڑھ کر کوفت ہوتی ہے۔ بات سیاست تک رہتی تو قابل برداشت تھی مگر اب تو سوشل میڈیا کے ذریعے قومی اداروں کو بھی براہ راست ٹارگٹ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستانی اداروں کی سبکی ہو رہی ہےجو کہ قابل مذمت عمل ہے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے انسدادِ الیکٹرانک کرائم بل منظور کیا گیا ہے جس کے ذریعے حکومت اب ان لوگوں سے سختی سے پیش آئے گی جو سوشل میڈیا کے ذریعے عوام اور خصوصاً اداروں کو بلا جواز ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں ۔سوشل میڈیا پر آزادیِ رائےپرکوئی پابندی نہیں مگر سوشل میڈیا استعمال کرنے والے خود اس بات کا تعین کریں کہ انہیں آزادی کا یہ حق کس حد تک استعمال کرنا چاہئے یہ آزادی انسان کو کسی نے نہیں دی بلکہ اس نے خود یہ آزادی حاصل کی ہے اور اگر یہ آزادی حاصل کی ہے تو اس کا تحفظ بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ آزادیِ اظہار کا کوئی بھی ذریعہ ہو وہ حدود و قیود سے مبرانہیں اور اس آزادیِ اظہار کے اصول و ضوابط مختلف معاشروں نے متعین کر رکھے ہیں اور جہاں کہیں بھی ان اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے وہاں فساد اور بدامنی پیدا ہوتی ہے ۔اس کی حالیہ مثال وہ بلاگرز جنہوں نے آزادی رائے کے نام پر عوام کے جذبات کو مجروح اورمشتعل کیا،سوشل میڈیا پر آزادی رائے کے نام پر کوئی اداروں پر کیچڑ اچھالے،لوگوں پر ذاتی حملے،جعلی اکائونٹس بنا کر معصوم لوگوں کو بلیک میل کرےتو یہ نا پسندیدہ،قابلِ جرم بلکہ شدید قابل مذمت عمل بھی ہے۔ اس کی وجہ سے فساد اور اضطراب کی اِک نئی لہر اٹھی ہے۔ اس کے علاوہ بے بنیاد الزام پر جس طرح مشال خان جیسے خوبرو اور پڑھے لکھے انسان کو قتل کر دیا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ لہٰذا یہ بات واضح ہو جانی چاہئے کہ اظہارِ رائے انسان کابنیادی حق ہے لیکن مادرپدر آزادی نہیں بلکہ اخلاق و ضوابط کے دائرے میں حدود و قیود میں آزادی کا استعمال ہو تو مہذب معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

 

.

تازہ ترین