• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم نواز شریف اپنے سیاسی کیرئیر کے کٹھن ترین مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ماضی میں طیارہ سازش کیس اور پھر موت کو قریب سے دیکھنے والے نوازشریف کے لئے کبھی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی۔37سال سے بھرپور سیاسی اننگز کھیلنے والے نوازشریف کے لئے یہ پہلا موقع ہے جب ان کی سیاست کو بند گلی میں داخل کرنے کی کوشش عروج پر ہے۔ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے مسیحاؤں نے جو بھی چالیں چلیں ،ہمیشہ ان کا محور نوازشریف کی زندگی تھی۔آج پہلا موقع ہے جب ملک کی اسٹیبلشمنٹ نوازشریف کے سیاسی کیرئیر سے کھیل رہی ہے۔1999میں پرویز مشرف کی بغاوت کے بعد جو بھی کیسز بنائے گئے انہوں نے سیاسی طور پر نوازشریف کو مزید مضبوط کیا۔مگر اس مرتبہ ایسا نہیں ہے۔پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی لیڈر عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرتا ہے تو درپردہ قوتیں اس کو مٹانے کے منصوبے تیار کرنا شروع کردیتی ہیں۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی بھی سیاسی جماعت کا ایک حد سے زیادہ مضبوط ہونا برداشت نہیں کیا گیا۔مسلم لیگ ن کے ساتھ آج یہی معاملہ ہے۔کیسی بد نصیب قوم ہے جس کے اپنے ادارے اس کے منتخب نمائندوں کو بااختیار کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ملک میں موجود مخصوص طبقے کی خواہش رہتی ہے کہ تمام سیاسی رہنما ان کے سامنے جھکیںاور طاقت کا اصل منبع ان کے ہاتھ میں ہو۔پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔جب غیبی مسیحاؤں کو محسوس ہوا کہ اگربھٹو اقتدار میں رہے تو معاملات "دوستوں"کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔تب عدالتی تاریخ کے ایک متنازع کیس میں انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔پیپلزپارٹی آج تک عدالتی قتل کا رونا روتی ہے مگر جب ملک میںسازشوں کا ماحول ہو تو کون کچھ کہہ سکتا ہے؟
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی منتخب حکومت کو گھر بھیجنے کی سازش ہوئی تو کچھ لوگ ایکدوسرے کےلئے "سہولت کار"کا کام کرتے ہیں۔پوری 90کی دہائی کو اٹھا کر دیکھ لیں۔جب بھی اسٹیبلشمنٹ جمہوری حکومت سے ناراض ہوئی اور صورتحال اس کے حق میں چلی گئی تو دوسری طرف سے بھی اس کو حمایت ملی ۔لیکن یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ اس کے بعد جو فیصلہ ہوا ،عوام نے اس فیصلے سے بڑے زخم کھائے ہیں۔پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور عدلیہ بحالی تحریک کے بعد یہ سب سازشیں ماضی کا قصہ معلوم ہوتی تھیں۔لیکن شاید تاریخ ایک مرتبہ پھر خود کو دہرا رہی ہے۔مگر ضروری نہیں ہے کہ سیاسی بساط پرایسا ہی ہو ۔انسانی تاریخ شاہد ہے کہ سیاستدان کی قسمت کا فیصلہ عوام کرتے ہیں کوئی اور نہیں کرتااور نہ ہی کرنا چاہئے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ملک کی کچھ قوتیں منفی یا مثبت رائے بنانے میں کردار ضرور اداکرتی ہیں۔
مسئلہ نوازشریف ،عمران خان،آصف زرداری سمیت کسی بھی رہنما کی ذات کا نہیں ہے۔مسئلہ ان عوام کا ہے،جن کا مینڈیٹ لے کر نوازشریف وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ہیں۔عوام ہی اصل طاقت ہیں۔ڈریں اس وقت سے جب یہ عوام سڑکوں پر نکل کر ان لوگوں کا راستہ روک رہے ہونگے۔کچھ لوگ مائنس نواز شریف کی تھیوریاں پوری دلیل سے بیان کرتے نہیں تھکتے۔مگر یا د رکھیں کہ اگر نوازشریف کونااہل کیا گیا تو پھر اہل کوئی بھی نہیں رہے گا۔آج نوازشریف کو مائنس کرنے والوں کو علم ہونا چاہئے کہ جب بھٹو کو مائنس کیا گیاتھا تو تب بھٹو کی سیاسی زندگی دس سال تھی اور دس سال کی کوشش کے باوجود بھٹو کی بیٹی اور پارٹی کو مٹایا نہیں جا سکا۔آمریت کے دس سالہ اقتدار میں جب لوگ ظلمت کو ضیاء کہتے تھے تو پاکستان دس سال آگے جانے کے بجائے دس سال مزید پیچھے چلا گیا۔آج نوازشریف کو مائنس کرنے والے صرف اعداد و شمار پر ہی غور کر لیں تو سامنے آجائے گا کہ نوازشریف کی سیاسی زندگی تقریبا چار دہائیوں پر مشتمل ہے۔یہ ممکن نہیں ہے کہ چالیس سال کی سیاسی جدو جہد کو ایک متنازع لیکس کے فیصلے کے ذریعے ختم کردیاجائےاور کوئی ردعمل سامنے نہ آئے۔نوازشریف کو آٹے میں سے بال کی طرح نکالنے کی مثال دینے والوں کو شاید معلوم نہیں ہے کہ نوازشریف کا نعم البدل بھی نوازشریف ہی ہے۔تاریخ دان نے جب بھی حقائق پر مبنی تاریخ لکھی تو مائنس نواز شریف کا بھاشن دینے والے یاد رکھیں کہ نواز شریف کے بغیر پاکستان کی تاریخ مکمل ہی نہیں ہوسکتی اور یہ بھی ذہن نشین رہےکہ جس طریقے سے نوازشریف کو نکالنے کی کوشش ہورہی ہے ،اس سے اور تو کچھ نہیں ہوگا پاکستان چالیس سال پیچھے ضرور چلا جائیگا۔
نوازشریف سمیت کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے۔احتساب سب کا ہونا چاہئے۔لیکن یہ کونسا طریقہ ہے کہ مخصوص بندے جے آئی ٹی میں شامل کروائے جائیں ۔نوازشریف کے بارے میں ہی کسی نے کہا تھا کہ "ٹوٹ تو سکتا ہوں ،مگر لچک سکتا نہیں"۔احتساب ہمیشہ قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جاتا ہے اور احتساب وہ ہوتا ہے جس میں انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔قارئین خود بہتر جانتے ہیں کہ اس احتساب کی ساکھ کا کیا عالم ہوگا ،جس کی نگرانی بعض مخصوص لوگ کررہے ہوں اور جس شخص کا احتساب کیا جارہا ہو۔اندھا بھی اس شخص کے ان لوگوں کے ساتھ تعلقات اور نظریات سے آگاہ ہو۔یعنی دو فریقین میں سے ایک فریق کو اٹھا کر دوسرے کے اوپر احتساب کی نگرانی کے لئے بٹھا دیا گیا ہے ۔آج یاد رکھیں کہ نوازشریف کے تو صرف بچوں کے احتساب کی نگرانی کی جارہی ہے۔کل اہم ترین لوگوںکی تعیناتیوں اور تقرریوں میں بھی ان لوگوں کا کردار ہوگا۔کیونکہ انہیں آئینی تحفظ دیا جارہا ہے۔اب اس راستے کو بند کرنا آسان نہیں ہوگا۔کل تک لاپتہ افراد کے کیسز میں جن کو توہین عدالت میں بلایا جاتا تھا،آج وہ اس عمل کی نگرانی کررہے ہیں۔

تازہ ترین