• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خبر میں خبریت نام کی کوئی شے نہیں بلکہ میں حیران ہوں کہ اس ’’کارخیر‘‘ میں اتنی دیر کیسے ہو گئی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں کشیدگی کم کرنے کیلئے ان کے ’’مشترکہ دوست‘‘ اور عوام کے دیرینہ دشمن سر گرم ہو گئے ہیں۔ہدف ان کا یہ ہے کہ سٹیٹس کو کے دونوں سمبلز کندھے سے کندھا ملا کر سخت ترین حریف جماعت پی ٹی آئی کے گرد گھیرا تنگ کریں۔ خیال یہ ہے کہ اک خاموش مفاہمت کے تحت پی پی پی کو سندھ کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا میں بھی خاطر خواہ ریلیف دیا جائے گا ۔اس کہانی کا مرکزی خیال بہت سادہ اور عام فہم ہے جسے پنجابی زبان میں بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا کہ ’’ونڈ کھائو تے کھنڈ کھائو‘‘ کہ ان میں اصل جھگڑا ہے ہی کیک میں شیئر کا کہ کس کو کتنا ملے گا یا ملنا چاہئے ورنہ نہ یہ نظریاتی نہ وہ نظریاتی۔دونوں کا مشن اور موٹو مدتوں سے ایک ہی ہے، فرق ہے تو طریقہ واردات کا۔اندر سے دونوں ہی ’’میثاق جمہوریت‘‘ ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ’’مثیاق جمہوریت‘‘ کے دوسرے ایپی سوڈ پر کام شروع ہو چکا جس پر غیور اور باشعور عوام کو چوکنا اور چوکس ہو جانا ہو گا اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو بھی اپنی حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنا ہو گا ۔یہ دونوں لڑائی اور صلح، ہر دو صورتوں میں ملک اور قوم کا بہت ہی قیمتی وقت بہت بری طرح برباد کر چکے ۔مومن ان دو سوراخوں سے کئی کئی بار ڈسے جا چکے ۔ نہ ڈسنے والے تھکے نہ ڈسوانے والوں پر تھکان طاری ہوئی اور پاکستان کی حالت سامنے ہے ۔آج سے 40سال پہلے فی کس کتنا قرضہ تھا ؟ آج کتنا ہے ؟ عوام تب زیادہ محفوظ اور پرسکون تھے یا آج زیادہ خوش اور سکھی ہیں ؟ ریٹ ریس تب تھی یا آج عروج پر ہے ؟ ہم تب زیادہ متحد تھے یا آج زیادہ منتشر ہیں ؟ خوف خدا تب عام تھا یا آج؟ ایسے ہی چند دیگر بنیادی بے ضرر سوالوں پر غور کر لیںتو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ ان دونوں سیاسی پارٹیوں نے معاشرہ میں کیا کچھ کنٹری بیوٹ کیا ؟برسوں پہلے جب میں نے یہ لکھنا شروع کیا کہ بی بی اور بابو کی سیاسی پارٹیوں میں مذکر مونث کے علاوہ کوئی بامعنی فرق نہیں، دونوں میں سب سے بڑی قدر مشترک عوام بیزاری ہے، دونوں ہی جینوئین طریقہ سے ڈلیور کرنے کی بجائے ڈراموں پر فوکس کرتے ہیں تو مجھے سمجھایا گیا کہ معاشرہ پروبھٹو اور اینٹی بھٹو میں بری طرح منقسم ہے اور اگر تم دونوں کو ہی ولن ٹھہرائو گے تو تمہیں پڑھے گا کون ؟ میرا جواب بہت سادہ تھا کہ میں دل کی گہرائیوں سے جسے درست سمجھتا ہوں لکھتا رہوں گا اور اگر پذیرائی نہ ملی تو لکھنا چھوڑ کر کوئی اور کام کر لوں گا....پھر یوں ہوا کہ پذیرائی کے در کھلتے چلے گئے۔ تب میں نے ’’تیسری قوت‘‘ کے خواب دیکھنا اور دکھانا شروع کئے ۔ مجید نظامی صاحب مرحوم و مغفور نے مجھے مثالیت پسندی کا شکار قرار دیا تو وہ صحیح تھے کسی تھرڈ فورس کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا لیکن میری کیفیت تو میرے اس شعر جیسی تھیکچھ اور نہیں وعدہ تعبیر کے بدلےہم خواب فروشوں سے کوئی خواب خریدےپھر کچھ عرصہ بعد PTIنمودار ہوئی لیکن ملکی سیاسی سین پر کوئی ڈینٹ تو کیا ہلکی سی خراش بھی نہ ڈال سکی تو پہلی بار دل ٹوٹ سا گیا لیکن میں سدا کا ڈھیٹ اور ضد ی اپنے سیاسی ایمان اور وجدان پر قائم رہا کہ پی ٹی آئی کے ٹیک آف والا معجزہ ہو گیا جو میری سمجھ سے آج تک باہرہے۔آج پاکستان تحریک انصاف فیصلہ کن تھرڈ فورس کے مرحلہ سے گزر کر ملک کی پہلی فیصلہ کن سیاسی فورس بن چکی ہے۔ حریفوں کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں، سانسیں اکھڑی ہوئی ہیں، چہرے پیلے پڑ رہے ہیں تو بھان متی کا کنبہ جوڑنے کی سازش بلکہ جمہوری سازش اپنے عروج پر ہے ۔ عوام بالخصوص PTIکے ورکرز دھیان سے سن لیں کہ ان کی حریف قوتوں کیلئے پاکستان سونے کی کان ہے جس سے سرے محل اور پانامے، پارک لین جنم لیتے ہیں اور اس کان پر حصہ بقدر جثہ اپنا قبضہ قائم رکھنے کیلئے یہ سب آخری حد تک جائیں گے ۔یہ سب مختلف سائیزز کی وہ انگلیاں ہیں جو بوٹیاں نوچتے وقت یکجا ہو جاتی ہیں ۔سو ہوشیار .....خبردار ! جاگتے رہناPTIکے خلاف سازش شروع ہو چکی۔

 

تازہ ترین