• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس کے بارے میں جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے ملک کی سیاست اور معیشت پر فوری اور گہرے اثرات دیکھے جا رہے ہیں جو کسی صورت قوم کے مفاد میں نہیں۔ رپورٹ میں اخذ کئے گئے مشاہدات، نتائج اور سفارشات کے متعلق حکومت اور اپوزیشن کے نقطہ ہائے نظر میں بعد المشرقین ہونے کے سبب ملک میں سیاسی بے یقینی اور عدم اطمینان کی فضا نقطۂ عروج کو پہنچ رہی ہے۔ اپوزیشن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی باتیں کر رہی ہے جس کا نتیجہ سڑکوں اور چوراہوں پر ہنگامہ آرائی اور تصادم کی صورت میں سامنے آسکتا ہے جو سیاسی افراتفری اور معاشی عدم استحکام کا موجب ہو گا۔ ایسے وقت میں جب جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہونے پر دو روز کے اندر ہی پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ جو ایشیا میں حصص کے کاروبار کی سب سے بڑی منڈی سمجھی جانے لگی تھی، تقریباً ڈھائی ہزار پوائنٹس کی کمی کے بعد بدترین مندی کا شکار ہو گئی ہے۔ سرمائے کا انخلا شروع ہو گیا ہے، سرمایہ کاروں کے 4کھرب روپے سے زائد ڈوب گئے ہیں، کاروباری حجم تقریباً 22فیصد کم ہو گیا ہے اور 93فیصد حصص کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔ سیاسی عدم استحکام تباہ کن ہو گا۔ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے پاس تین ہی راستے تھے۔ پہلا یہ کہ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں اور اپنی جگہ مسلم لیگ کے کسی سینئر رہنما کو وزیراعظم بنوا دیں، دوسرا یہ کہ عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کیلئے مقررہ وقت سے پہلے عام انتخابات کا اعلان کر دیں اور تیسرا یہ کہ صورت حال کو جوں کا توں رہنے دیں اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیں۔ حکمران پارٹی کی قیادت نے طویل غور و خوض کے بعد تیسری راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس طرح معاملہ عدالت عظمیٰ کے پاس چلا جائے گا جس کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ ویسے بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ صرف ایک رپورٹ ہے، کوئی فیصلہ نہیں۔ پھر یہ رپورٹ مختصر ترین مدت میں بھاگ دوڑ کے بعد تیار کی گئی ہے اور نامکمل بھی ہے، اس کے دسویں باب میں شامل نکات کی تحقیق و تفتیش ابھی باقی ہے۔ سپریم کورٹ کا عملدرآمد بنچ اس کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو دیکھے گا، فریقین کا موقف بھی سنا جائے گا جس کے بعد کوئی فیصلہ سنایا جائے گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کا ہی ہو گا۔ جے آئی ٹی رپورٹ کی موافقت اور مخالفت میں عدالت سے باہر کافی سیاسی بحث ہو چکی ہے، اپوزیشن پارٹیاں اس مطالبہ پر متفق ہیں کہ وزیراعظم فوری طور پر استعفیٰ دے دیں جبکہ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے انہیں نااہل قرار دیا ہے نہ مستعفی ہونے کی سفارش کی ہے۔ پھر وزیراعظم اور شریف خاندان پر عوام کے پیسے کی کرپشن کا بھی کوئی الزام نہیں۔ اپوزیشن نے اس دوران پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر وزیراعظم پر استعفے کیلئے دبائو ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے اور بعض صوبائی اسمبلیوں میں بھی قراردادیں جمع کرائی ہیں اس کے نتیجے میں منتخب ایوانوں میں بھی آنے والے دنوں میں ہنگامہ آرائی کے مناظر دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ اسمبلیوں کے علاوہ اپوزیشن نے اپنے حامیوں کو سڑکوں پر لانے کے ارادوں کو بھی عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا تو یہ ملک میں بدترین سیاسی عدم استحکام کا پیش خیمہ ہوگا جس کا معروضی حالات میں پاکستان اس وقت متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت اور اپوزیشن میں ’عقابوں‘ کے علاوہ فاختہ صفت لوگ بھی ہیں جو سیاسی رواداری، مفاہمت اور صبر و تحمل سے معاملات کو یکسو کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، ضرورت اس وقت کسی نوابزادہ نصر اللہ خان کی ہے جو فریقین کو بات چیت کے ذریعے غیر ضروری محاذ آرائی، ہنگامہ خیزی اور لڑنے جھگڑنے سے روکے۔ ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ فریقین پاناما کیس کا معاملہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیں، انصاف کو اپنا قانونی راستہ اختیار کرنے دیں اور اپنی توانائیاں عام انتخابات کے لئے بچا رکھیں جن کے انعقاد میں اب زیادہ عرصہ نہیں رہ گیا۔

تازہ ترین