• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Todays Print

اسلام آباد (رانا مسعودحسین؍صباح نیوز) سپریم کورٹ میں’پانامہ پیپرزلیکس‘ کیس کی سماعت جمعرات کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میںجسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی پنچ نے کی۔

سماعت کے آغاز میں سپریم کورٹ نے پاناما عملدرآمد کیس میں دستاویزات عدالت میں پیش کئے جانے سے قبل میڈیا پر لیک ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا سے کہا کہ دستاویزات بعد میں عدالت میں جمع کرائی گئیں اورمیڈیا پرپہلے آئیں ، ایسا کریں باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، وہاں دلائل بھی دے آئیں۔

جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میڈیا پر دستاویز میری طرف سے جاری نہیں کی گئیں۔ عدالت عظمی نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ حتمی نہیں ،جے آئی ٹی کے نتائج پر حملے نہ کریں بلکہ ان کی دستاویزات کا جواب دیں، لکھ کر دے دیتے ہیں فیصلہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگز پر نہیں کرنا،فیصلہ دستاویز پر ہونا ہے، نیب کرپشن کے تحت الزام کرپشن کا ہے، بظاہر جعلسازی بھی ہے، یہ کیاکردیا جائیداد بچوں کی ثابت ہوئی تو اثر عوامی عہدیدار پر ہوگا، قطری نہیں آتا تو کیا ہم دوحا جائیں۔

عدالت نے کہا کہ جعلسازی پر قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا اور سزا سات سال قید ہے۔ گزشتہ روز مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی تو وزیر اعظم کے بچوںحسن نواز ،حسین نواز اور مریم نوازکے وکیل، سلمان اکرم راجہ نے مزید دستاویزات جمع کرواتے ہوئے موقف اختیار کیاکہ میں وہ دستاویزات لے کر آیا ہوں ،جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ ان کا توکوئی وجود ہی نہیں تھا، جے آئی ٹی نے اپنا کام ٹھیک نہیں کیا، مزید تحقیقات کی ضرورت ہے تاہم بنچ کے رکن ججز نے دستاویزات سپریم کورٹ میں پیش کیے جانے سے قبل قومی میڈیا پر شائع ہوجانے کے حوالے سے شدید برہمی کا اظہار کیا اورجسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی تمام دستاویزات میڈیا پر زیرِ بحث ہیں اور آپ تو میڈیا کو بھی دلائل دے رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ بہتر تھا کہ آپ باہر میڈیا کے ڈائس پر جا کر ہی دلائل دے دیتے۔جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ انھوں نے میڈیا کو کوئی دستاویز نہیں دی ہے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ جے آئی ٹی کے نام پر چند دستاویزات ہمیں بھی ملی ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ان میں سے ایک قطر کے شہزادہ حمد بن جا سم کا خط ہے اور ایک دستاویز برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے۔یہ دستاویزات عدالت میں ہی کھولی جائیں گی۔انہوں نے وضاحت کی کہ یہ دستاویزات جے آئی ٹی کی جانب سے لکھے گئے خطوط کے جواب ہیں جو کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد ہمیں موصول ہوئے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے متعلقہ حکام سے ان دستاویزات کی تصدیق بھی کروائی تھی جبکہ مریم نواز کے وکیل نے ان دستاویزات سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ اس وقت میں ان کا وکیل نہیں تھا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے گلف سٹیل ملز کی فروخت اور مشینری کی دبئی سے جدہ منتقلی کے معاملے پر حسین نواز سے کوئی جرح نہیں کی تھی، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یو اے ای کے محکمہ انصاف کو جو خطوط لکھے ہیں انھیں بھی دیکھ لیتے ہیں۔ فاضل وکیل نے گلف سٹیل مل کے حوالے سے دلائل دیئے توجسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ یہ دستاویزات دوبارہ دبئی بھجوائی جائیں؟ جس پر انہوںنے جواب دیا کہ ان کے موکل حسین نواز کو مجرم بنادیا گیا ہے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے نتائج پرحملے نہ کریں اوران کی دستاویزات کا جواب دیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جے آئی ٹی کے اراکین نے آپ کے موکل کا موقف نہیں سنا ہے تو آج ہم سن لیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشینری کی دبئی سے ابوظہبی منتقلی کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

فاضل وکیل نے کہا کہ یواے ای کی ایک ریاست سے دوسری ریاست منتقلی کا ریکارڈ ضروری نہیں ہے،جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دبئی کسٹمز میں ریکارڈ نہیں ہے تو محکمہ کسٹمز کی ضرورت ہی کیا ہے؟جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ کسٹمز دستاویزات یو اے ای سے باہر جانے کے لیے ضروری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ان کے موکل حسین نواز سے مشینری سے متعلق کوئی سوال ہی نہیں پوچھا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جو دستاویزات آج پیش کی جارہی ہیں ،وہ پہلے کیوں نہیں دی گئیں؟جب بھی کوئی سوال اٹھایا جاتا ہے تو کوئی نئی دستاویزات لے کر آجاتے ہیں،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ جو دستاویزات ہمارے خلاف پیش کی گئی ہیں ان میں حسین نواز کے بارے میں یو اے ای کے محکمہ انصاف نے غلط بیانی کی ہے اور ہم اس محکمے کے خلاف قانونی کارروائی کا حق رکھتے ہیں،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب تک آپ محکمہ انصاف کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کر لیتے، کیا عدالت اس وقت تک آپ کے جواب کا انتظار کرے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کی دی گئی دستاویز میں میٹریل کی تفصیل شامل نہیں، جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو آپ دستاویز لے آتے ہیں، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ مشینری کی منتقلی پر پہلے کسی نے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وقت کے ساتھ ساتھ خلاء کو پُرکیا گیا ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ان دستاویز کو جے آئی ٹی رپورٹ کے جواب میں لایا گیا ہے یہ نکتہ ہم نے نوٹ کرلیا ہے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کوئی مصدقہ دستاویز لائیں، جو دستاویزات آپ دکھا رہے ہیں وہ نجی دستاویزات ہیں اور ان میں آپ یہ بھی لکھوا سکتے ہیں یہ مشینری بحری جہاز ’ٹائٹینک‘ کے ذریعے جدہ بھجوائی گئی تھی، کیا یہ درست نہیں ہے کہ عزیزیہ سٹیل مل کے واجبات 21 ملین تھے جبکہ 53 ملین حسین نواز کو دیئے گئے تھے۔

تازہ ترین