• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس:273دن چلنے والی سماعت مکمل، کب کیا ہوا؟

Todays Print

اسلام آباد(رپورٹ /زاہد گشکوری)273ایام کی طوالت رکھنے والاپاناما  مقدمے کا جمعہ اکیس جولائی کو اختتام ہو گیا۔

مقدمے کی کارروائی میں 14ہزار صفحات پر مشتمل مواد عدالت عظمیٰ کے روبرو پیش کیا گیا۔ مقدمے میں 307سوالات پوچھے گئے۔ان 273 ایام میں کیس کی  50سماعتیں ہوئیں، جن میں سپریم کورٹ کے 150گھنٹے صرف ہوئے۔ پاکستان پولیس سروس کے سینئر افسر واجد ضیاء کی سربراہی میں جے آئی ٹی نے 60روز تک تحقیقات کیں۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں قائم بنچ نے کیس کی 26 سماعتیں مکمل کیں۔ قبل ازیں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم بنچ نے 9سماعتیں پوری کیں۔ فریقین کے وکلاء نے اس مقدمے میں 315مقدمات کے حوالے دیئے۔مقدمے کے وکلاء نے امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا،بھارت، بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ سمیت دو درجن سے زائد ممالک میں پیش آنے والے مقدمات کے عدالتی فیصلوں کے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی  بنچ کے دو ارکان نے وزیراعظم کی نااہلی کی سفارش کی تاہم دیگر تین نے  مزید تحقیق و تفتیش پر زور دیا اور کہا کہ اس کے لیے  تمام تراختیارات  سے لیس ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) قائم کی جائے ۔جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں قائم بنچ کے سامنے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے 17گھنٹے دلائل دیئے جو ایک ہفتے کی سماعت پر مشتمل تھے۔انہوں نے 18ممالک کے 152 مقدمات اور عدالتی نظائر کے حوالے دیئے۔

تحریک انصاف کے لیڈنگ وکیل نعیم بخاری نےدونوں پاناما بنچز کے سامنے 21گھنتوں تک دلائل دیئے۔ 307 سوالات میں سے 170فاضل ججوں نے پوچھے جبکہ باقی سوالات وکلاء، تحقیقات کاروں، مدعا علیہ اور استغاثہ نے پوچھے۔

وزیراعظم نواز شریف کی تقاریر کو ججز اور وکلا نے111مرتبہ پڑھا۔ججز اور وکلا کی جانب سے سابق وزیراعظم قطرحمد بن جاثم آل ثانی اورقطری خطوط کا131مرتبہ  ذکرہوا۔پی ٹی آئی سربراہ عمران خان 32مرتبہ عدالتی کارروائی میں شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے 86گھنٹے عدالت میں گزارےاور 30سماعتوں میں شریک ہوئے۔

اس کیس کی آخری پانچ سماعتوں میں پاکستان پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے بعض اہم لیڈروں کو بھی شریک دیکھا گیا۔چوٹی کے کئی بڑے بڑے وکلاء نے ہفتوں طویل اپنے دلائل جاری رکھے۔ فاضل ججز نے دوران سماعت نہایت جرات مندانہ ریمارکس پاس کیے۔ دوماہ کے طویل تحقیقاتی عمل نے نصف درجن سے زائد ممالک کوبھی معاملات میں شامل رکھا۔نہ صرف وزیراعظم نواز شریف بلکہ ان کی ساری فیملی سے بھی سوالات کیے گئےمگر کئی سوالات پھر بھی جواب طلب رہ گئے۔

پاناما کیس کی سماعت جمعہ کے روز تمام تر افزاینڈبٹس (اگر مگر)کیساتھ سپریم کورٹ  کی اس آبزرویشن پر ختم ہوئی ’’ یقین رکھیئے کہ فریقین کے پیش کردہ ہر لفظ کو بغور پڑھا گیا ہے اور پوری احتیاط کے ساتھ دوبارہ بھی پڑھا جائے گا،ہم مدعا علیہ نمبر ایک (وزیراعظم نواز شریف)کی نااہلی سے متعلق معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں‘‘۔

کورٹ روم نمبرIIمیں عدالتی کارروائی کا مشاہدہ کرنے والے اس نمائندے سمیت بیشتر افراد کی رائے یہ تھی کہ یہ  مقدمے کااختتام ہو سکتا ہے یا نئے اختتام کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔محفوظ فیصلے کا اعلان آئندہ ماہ کسی وقت ہو سکتا ہے تاہم اس وقت ہر آنکھ امپلی منٹیشن بنچ کے تین فاضل ججوں پر لگی ہوئی ہے۔ کورٹ روم نمبرIIمیں لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھےکہ بنچ کیا فیصلہ دے گا؟کیونکہ اس فیصلے سے پاکستانی سیاست میں طوفان بپا ہو سکتا ہے۔

ایک سینئر وکیل نے مذکورہ سوال پر اس نمائندے کو بتایا کہ میرا خیال ہے کہ سپریم کورٹ براہ راست وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دے گی، یہ پریکٹس تو درست نہیں ہے لیکن اس کیس میں مجھے یہی نظر آرہا ہے، نااہلی کا دوسرا نمبر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہے کیونکہ وہ بھی آرٹیکل 62اور 63کے تحت انہی الزامات کاسامنا کر رہے ہیں۔تاہم اس موقع پر ساتھ ہی موجود ایک دوسرے وکیل نے فوری طور پر مداخلت کی اور کہا کہ سپریم کورٹ کا آئین کے آرٹیکل 184(3) کےاپنے اختیارات کے تحت  وزیراعظم  کو بیک جنبش قلم ہٹا دینا مشکل دکھائی دیتا ہے۔نو ماہ قبل جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تھی توجب سے اس طرح کی بحث جاری ہے اور جاری رہے گی یہاں تک کہ فیصلہ سامنے آ جائے۔تاہم کئی دوسرے امکانات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین