• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کی ’’ڈو مور ‘‘پالیسی اور حقیقت خصوصی مراسلہ…رانا اظہر عبادت

وطنِ عزیز پاکستان کا شمار دنیا کے اُن خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جو قدرتی وسائل سے مالامال ہیں اور جہاں چاروں موسم پائے جاتےہیں۔ یہاں کے عوام مہمان نوازاور محبت و خلوص کا عملی نمونہ ہونے کیساتھ ساتھ شجاعت و بہادری کی عظیم مثال ہیں جس کی پوری دنیا معترف بھی ہے۔ جب یہی عوام اِنہی وسائل کو بروئے کار لا کر دنیا میں خود کو منوانے کیلئے قدم بڑھاتے ہیں تو پاک وطن کے ماتھے پر لگا دہشت گردی کا داغ اُنکی ہر کوشش اور کاوش کے آڑے آ جاتا ہے۔پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے ناسور کا شکار ہے اور اب تک ستر ہزار قیمتی اور معصوم جانیں دہشت گردی کے واقعات کی بھینٹ چڑھ چکی ہیںجبکہ ایک کھرب ڈالر سے زائدکا مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔اِن قربانیوں اور مالی نقصانات کے بعد بھی پاکستان کے غیور عوام ، بہادری اور شجاعت کی علمبردار افواج پاکستان اور دیگر سیکورٹی ادارے دہشت گرد اور شدت پسند عناصر کیخلاف برسر پیکار ہیں۔مگر پاکستان کی اِن تمام تر قربانیوں اور دہشت گردی کیخلاف کاوشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی سالانہ ’’کنٹری رپورٹ آن ٹیرارزم 2016ء‘‘ میں پاکستان کو افغانستان، شام، عراق، کولمبیا، صومالیہ، فلپائن، لیبیا اور مصر جیسے ممالک کی صف میں رکھا ہے اور الزام لگایا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے اور پناہ گاہیں موجود ہیں۔اِس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان نے شدت پسند گروپوں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جبکہ انتہا پسند عناصر کیخلاف جاری آپریشنز میں ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیاگیا ہے۔امریکہ کو اِس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ امریکہ میں نائن الیون کے دہشت گرد حملے کے بعد سے تا دم تحریر پاکستان دہشت گرد گروپوں کیخلاف اُس کے ساتھ کھڑا ہے اور افغانستان میں امریکہ کی لگائی آگ سے جھلس رہا ہے۔جنرل مشرف کے دور میں دہشت گردی کیخلاف سب سے بڑے ’’آپریشن المیزان‘‘ سے شروع ہونے والا سلسلہ راہِ حق، راہ ِ نجات، صراط مستقیم، راہِ راست، کوہِ سفید، شیر دل اور ضرب عضب سمیت 14ملٹری آپریشنز کا سفر طے کرتا ہوا آج ’’آپریشن ردالفساد‘‘ اور ’’آپریشن خیبر فور‘‘ تک پہنچ چکا ہے۔افواج پاکستان اور دیگر سیکورٹی ادارے ہر لمحہ بلا امتیاز دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کیلئے بر سر پیکار ہیں۔جس طرح دہشت گرد اپنی بربریت میں کسی معصوم بچے، کسی بوڑھے ماں باپ، خاندان کے کسی واحد کفیل میں تفریق نہیں کرتے بالکل اُسی طرح پاکستان کے بہادر فوجی کی بندوق سے نکلنے والی گولی کسی بھی انتہا پسندگروپ میں کوئی تفریق یا امتیاز نہیں کرتی۔دہشت گردوں کیخلاف ملٹری آپریشنز میں کبھی کسی قسم کاامتیاز نہیں برتا گیا۔مزید براں حکومت پاکستان نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا اطلاق کرتے ہوئے دہشت گردوں کے بیرون ملک جانے پر پابندی بھی عائد کی جو آج تک لاگو ہے۔اسکے علاوہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی روک تھام کیلئے جوہری سپلائر گروپ کی جانب سے کنٹرول کردہ اشیاکو اپنی نیشنل کنٹرول لسٹ میں بھی شامل کیا ۔رپورٹ میں پاکستان کو جن ممالک کی فہرست میں رکھا گیا ہے اُن کے مقابلے میں وطن عزیز کی دہشت گردی کیخلاف کارروائیوں اور کامیابیوں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں ہونیوالے ملٹری آپریشنز کے نتیجے میں یہاں سے بھاگنے والے دہشت گرد افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہیں بنائے ہوئے ہیں اور پاکستان کی سلامتی کیلئے مستقل خطرہ ہیں۔ رپورٹ میں جن دہشت گرد گروپوں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی افغانستان میں ہی پناہ گزیں ہیں اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ میرا مقصد افغانستان کو دہشت گرد ٹھہرانا نہیں ہے بلکہ اِس حقیقت سے پردہ اٹھانا ہے کہ ہمسایہ ملک پاکستان سے بھاگے ہوئےدہشت گردوں کو پناہ دیکر ہماری دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔اِس لئے امریکہ کو پاکستان پر دبائو ڈالنے کے منفی حربوں اور ’’ڈومور ‘‘ کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کاوشوں کو سراہے۔ افواج پاکستان اور دیگر اتحادی فوجوں کیساتھ ملکر خطے میں امن کے قیام کیلئے کوشش کرنا ہو گی۔ یہی وقت ہے کہ امریکہ اقوام عالم کا علمبردار ہونے کا عملی ثبوت دے اور اپنے سیاسی مفادات کو اولین ترجیح دینے کے بجائے دہشت گردی کے خاتمے کیلئےمشترکہ اقدامات پر توجہ دے۔

تازہ ترین