• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوازشریف سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے بعد اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور واپسی کو اداروں سے ٹکراؤکی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ اگر یہی واپسی موٹروے کے ذریعے ہوتی تو معاملات میں اتنی شدت نہ آتی۔بہرحال پاناما فیصلے کے بعد نوازشریف نے اپنی طاقت عوامی جم غفیر سے ثابت کی ہے۔ آئندہ چند روز میں مسلم لیگ ن کے بانی جی ٹی روڈ ریلی سے ملتے جلتے فیصلے کرسکتے ہیں۔لیکن ان تمام فیصلوں کا دارومدارفریق دوم اور سوم کی منصوبہ بندی سے جڑا ہوا ہے۔زبان زد عام ہے کہ اگر نوازشریف نے مزید عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا تو معاملات بند گلی میں داخل ہوسکتے ہیں۔مسلم لیگ ن کے بعض رہنماؤں کا موقف ہے کہ جی ٹی روڈ پر کامیاب ریلی اور باعزت گھر واپسی کے بعد ٹریک ٹو کا آغاز کیا جانا چاہئے۔میری اطلاعات کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف درپردہ قوتوں سے کسی بھی قسم کی بات چیت کے موڈ میں نہیں ہیں۔نوازشریف سمجھتے ہیں کہ سول عسکری تعلقات میں جتنا برداشت انہوں نے گزشتہ چار سالوں کے دوران کیا ہے ،اتنا کسی بھی دور میں نہیں کیا۔نواز شریف کی رائے ہے کہ اگر چار سالوں کی برداشت اور حکمت پالیسی کے باوجود نااہلی کا تحفہ مل سکتا ہے تو پھر بات چیت کرنا بے سود ہے۔مگر ان سب کے باوجود نوازشریف براہ راست ٹکراؤ نہیں چاہتے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ نوازشریف اس مرتبہ ایک ایسا مینڈیٹ چاہتے ہیں جس کے ذریعے وہ با آسانی ایسی اصلاحات کرسکیں ۔جس کے بعد کسی کا کندھا استعمال کرکے وزیراعظم کو گھر نہ بھیجا جاسکے۔جوڈیشل ریفارمز نوازشریف کے آئندہ انتخابی منشور میں سر فہرست ہونگی۔لیکن غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا نااہلی کے بعد نوازشریف کی حالیہ پالیسی درست ہے؟ کیا بالا پالیسی کو اپنا کر سینیٹ انتخابات اور2018کے عام انتخابات میں بآسانی جایا جاسکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا ہر پاکستانی بالخصوص مسلم لیگی متلاشی ہے۔
میری ذاتی رائے کے مطابق پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت ابھی تک اتنی مضبوط نہیں ہوئی کہ "طاقت"کا مقابلہ کرسکے۔ہم نے دیکھا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت اور منتخب وزیراعظم کتنا مضبوط ہے؟ جس ملک میں 20کروڑ عوام کے منتخب وزیراعظم کو لمحوں میں گھر بھیجا جاسکتا ہو تو وہاں طاقت کے معیار کیا ہونگے۔آج نواز شریف کے خلاف فیصلے سے سب سے زیادہ جسے فائدہ ہوا ہے وہ درپردہ قوتیں ہیں۔سابق چیف جسٹس افتخا ر محمد چوہدری کی بحالی کے بعد طاقت کا محور ملک کی عدلیہ بن گئی تھی۔عدلیہ جدوجہد کے نتیجے میں اختیارات کا بہت بڑا حصہ عدلیہ کے پلڑے میں آکر گرا تھا۔سیاستدانوں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے غیبی قوتوں کے بجائے عدلیہ کی طرف دیکھنا شروع کردیا تھا۔مگر تاثر ہے کہ پاناما فیصلے کے بعد طاقت کا محور واپس راولپنڈی چلا گیا ہے۔بہر حال بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔آج مسلم لیگ ن کو بطور سیاسی جماعت اپنی بقا کی جنگ لڑنی ہے۔نوازشریف صاحب جمہوریت اور سویلین بالادستی کے بہت بڑے داعی ہیں۔لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کے جذبات ان کے ساتھ ہیں۔مگر اس قوم میں ابھی "طاقت"کے سامنے کھڑے ہونے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوا۔اس میں قوم یا کسی فرد کا قصور نہیں ہے۔ بلکہ گزشتہ کئی سو سالوں سے ہمیشہ ہم پر حکمرانی ہوتی آئی ہے۔جس فاتح نے بھی برصغیر پاک و ہند میں قدم رکھا ۔ہم نے نہ صرف گرمجوشی سے اس کا استقبا ل کیا بلکہ اسے حکمرانی کرنے کا پوراپورا موقع دیا۔ سکندر اعظم اور ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ہم نے ہر کسی کو خوش آمدید کہنے میں عافیت جانی۔کیسی بدنصیبی ہے کہ جو لوگ ہم پر زبردستی طاقت کے بل بوتے پر حکمرانی کرتے رہے ہیں ،آج وہ ہمارے ہیرو ہیں۔
میں ورغلایا ہوا لڑ رہا ہوں اپنے خلاف
میں اپنے شوق شہاد ت میں مارا جاؤں گا
مجھے بتایا ہوا ہے میری چھٹی حس نے
میں اپنے عہد خلافت میں مارا جاؤں گا
جو کچھ نوازشریف کے ساتھ ہوا اسے برداشت کرنا بہت کٹھن ہوتا ہے۔مگر نوازشریف کو اپنی جماعت کی بقا اور جمہوریت کی مضبوطی کے لئے مدبرانہ اور حکمت پسندانہ فیصلے کرنا ہونگے۔کہنا بہت آسان ہے اور کرنا بہت مشکل ہے۔مگر جس شخص نے دو مرتبہ پنجاب جیسے صوبے کی وزارت اعلیٰ اورتین مرتبہ وزارت عظمیٰ دیکھی ہو ۔وہ کوئی عام آدمی نہیں ہوسکتا ۔اگر اللہ نے 20کروڑ عوام میں سے یہ اعزاز صرف نوازشریف کو بخشا ہے تو اس میں کوئی خوبی تو ایسی ضرور ہے جو اللہ رب العزت کو بہت پسند ہے۔اس لئے نوازشریف کے لئے یہ سب کچھ برداشت کرکے ایک مرتبہ پھر صبر سے کام لینا کوئی ناممکن بات نہیں ۔عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا نوازشریف کا بنیادی حق ہے مگر ٹریک ٹو کا آغاز ہونا چاہئے۔جن لوگوں کی خواہش تھی کہ مائنس ون ہو۔آج مائنس ون ہوچکا ہے۔مگر اب اپنی اناؤں کو پس پشت ڈال کر بات چیت کا آغاز ہونا چاہئے۔
نوازشریف پاکستان کا سب سے بڑا سیاسی اسٹیک ہولڈر ہے۔آپ کسی بھی صورت اس اسٹیک ہولڈر کو نکال کر باہر نہیں پھینک سکتے۔عین ممکن ہے کہ طاقت کے بل پر سب کچھ کرنا ممکن ہو۔مگر ماضی میں طاقت کے انجام سے ہم سب واقف ہیں۔طاقت ہی تھی جس نے مشرقی پاکستان ہم سے الگ کروایا تھا۔اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ آج بھی کسی سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما کو مٹانا آپکے لئے ناممکن نہیں ہے۔مگر اس مرتبہ ایسے کسی بھی اقدام کی قیمت بہت زیادہ ادا کرنی پڑے گی۔مارنے سے ہمیشہ ڈرانا بہتر ہوتا ہے۔وطن عزیز کی بہتری کے لئے نوازشریف کو ایک مرتبہ پھربڑا فیصلہ لینا ہوگا۔آصف زرداری سے بات چیت سے بہتر ہے کہ ان سے بات چیت کرلی جائے جن کے کہنے پر آصف زرداری آپ سے بات چیت کرنے پر تیار نہیں ہے۔جنہوں نے آپ کو مائنس کیا ہے آج وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کے استحکام اور جمہوریت کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ بات چیت کرکے معاملات کو2018کے انتخابات تک چلائیں۔ عام انتخابات کے بعد جس جماعت کو بھی مینڈیٹ ملے گا وہ نئی شرائط و ضوابط طے کرے گی۔ جاتے جاتے اشعار پیش خدمت ہیں
بس اک صلح کی صورت میں جان بخشی ہے
کسی بھی دوسری صورت میں مارا جاؤں گا
میں چپ رہا تو مجھے مار دےگا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جائوں گا

تازہ ترین