• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مختلف ذرائع سے قومی سیاسی ابلاغ کے جملہ ذرائع سے عوام الناس کو ابلاغ کئے گئے کسی مخصوص بیانیے پر عوام الناس کے اکثریتی حصے کا پختہ یقین بڑی طاقت ہوتی ہے جو ملکوں کے حکومتی و سیاسی منظر تبدیل کر کے رکھ دیتی ہے۔ اس عمل کے تیز تر یا سست ہونے کا انحصار آزادی صحافت کے میسر مواقع سے ہے۔ ماس کمیونیکیشن سائنس کی چھتری تلے رائے عامہ کی تشکیل کا یہ عمل جتنا پیچیدہ اور دلچسپ ہے اتنا ہی نتیجہ خیز ہوتا ہے لیکن وہ رائے جو عوام کی اکثریت اپنی رائے کے طور پر بنائے اور اس میں تبدیلی کی گنجائش کم تر رہ جائے، اور ایسا ہوتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں خصوصاً پختہ جمہوری معاشروں اور ترقی پذیر جمہوریتوں میں بھی، جہاں آزادی صحافت آئیڈیل یا مکمل تو نہیں، لیکن کافی حد تک میسر ہے، حکومتیں اور ان کی حریف سیاسی جماعتیں اپنی سرگرمیوں میں جسے سب سے زیادہ ترجیح دیتی ہیں، وہ اپنے بیانیوں کی تائید و حمایت میں رائے عامہ کی تشکیل ہے۔ اگرچہ اس عمل کا ایک بڑا فیصد بغیر کسی منصوبہ بندی اور حکومتوں و سیاسی جماعتوں کی اپنی کاوشوں سے ہٹ کر بھی جاری رہتا ہے جس کا بڑا ذریعہ میڈیا کی اپنی پیشہ وری ہے لیکن حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اپنے طور خالص اپنے مخصوص مقاصد کے لئے جو پاپڑ بیلتی ہیں، اس کے لئے بھی وہ میڈیا کی ہی محتاج ہوتی ہیں، جسے اپنے حق میں استعمال کرنے (Media Management) کے لئے وہ سکت کے مطابق سرمایہ بہاتی ہیں، بالعموم اس مد میں وہ کنجوسی کی مرتکب نہیں ہوتیں۔ لیکن میڈیا مینجمنٹ بذات خود ایک پیچیدہ پیشہ ہے، رائے عامہ کی تشکیل کے عمل سے بھی زیادہ پیچیدہ، جس کے لئے بڑی مہارت، صحافتی شعور، تجربہ، متعلقہ موضوع (جس کا ابلاغ مطلوب ہو) کا بیک گرائونڈ نالج اور سب سے بڑھ کر کمیونیکیشن سائنس (جو کہ اب میڈیکل اور کسی بھی انجینئرنگ) کی طرح مکمل باڈی آف نالج ہے) کا متعلقہ علم۔
آج پاکستان میں پاناما کیس کے حوالے سے وزیراعظم کی بذریعہ عدالتی فیصلہ نااہلی کے حوالے سے جس طرح حکومتی اور سیاسی منظر تبدیل ہوا ہے اور اب جو اس کے نتیجے میں اور بہت کچھ ہونے کو ہے، یقیناً اس کی بڑی وجہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کا متفقہ فیصلہ ہی بنا ہے، لیکن یہ اب ہی کیوں ہوا، کرپشن، خزانے کی لوٹ مار، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری تو پاکستان میں عشروں پر محیط کالا دھندہ ہے جس کی نشاندہی سیاسی ابلاغ اورمیڈیا کے اپنے ایجنڈے سے بھی ہوتی تھی۔ یہ امر واقعہ ہے کہ منتخب حکومتوں کے جاری عشرے میں کرپشن کی موجودگی اور اس کے انسداد کا جو ابلاغ اب ہماری سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے کیا اس نے ملک میں اسٹیٹس کو اور تبدیلی کی سیاست کرنے والوں میں ایسی ابلاغی جنگ چھیڑی کہ ملک کے کرپشن میں ڈوبنے کا یقین عوام الناس کے اذہان میں راسخ کر گیا۔ عوام الناس کی بھاری اکثریت اس کے انسداد کے لئے اٹھی تو نہیں (کہ اس کی اپنی جملہ وجوہات) لیکن تبدیلی کی سیاسی قوتوں کی جانب سے جو ابلاغ ملک میں کرپشن کے تشویشناک درجے اوراس کے گہرے عوام دشمن نتائج پر ہوا، اس نے طاقت ور اسٹیٹس کو پر ایک دو بڑی ضربوں کے بعد اب جو کاری ضرب لگائی ہے اس سے ابھی اس کی کمر تو نہیں ٹوٹی لیکن اس کے واضح امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
واضح رہے ’’آئین نو‘‘ میں کرپشن، بدترین گورننس اور احتساب و انصاف کے حوالوں سے تجزیے مسلسل جاری رہے لیکن ان میں اسٹیٹس کو کی طاقت کو تسلیم کیا جاتا رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان، جناب سراج الحق اور شیخ رشید نے کرپشن اور احتساب کو اپنے سیاسی ابلا غ میں اولین ترجیح دی اس پر صورتحال کے مطابق کامیاب بیانیے بنائے اور بغیر کسی بڑے سرمایے سے میڈیا مینجمنٹ کے بغیر کامیاب بیانیے تشکیل دیئے اور اس کی تکرار بڑی کامیابی سے کی، لیکن ہدف پھر بھی بہت دور تھا۔
پاکستان میں جو کچھ طاقت ور اسٹیٹس کو کے خلاف پندرہ بیس روز میں ہوگیا اس کے یہ چار بڑے محرکات بہت واضح ہیں۔
1۔ پاکستان میں خود پاکستانی میڈیا (دی نیوز، جنگ اور جیو) کا پاناما اسٹوری کو بریک کرنا جو لمحوں میں پورے قومی میڈیا کا خود بخود ٹاپ ایجنڈا بن گئی۔
2۔ عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید کا پاناما پر طویل ترین اور انتہائی موثر اور مسلسل سیاسی ابلاغ جس نے پہلے سے موجود کرپشن، انسداد کرپشن اور احتساب پر موجود رائے عامہ کی تشکیل میں ہلچل مچا کر اسے صرف تیز تر ہی نہیں کیا، حقائق بھی ایسے سامنے آنے لگے اور ان پر بیانیے بھی کامیابی سے تیار کئے گئے مثلاً ابلاغ میں عوام کی آسان تر سمجھ کے لئے سارا زور لندن پیلس کے منی ٹریل پر رکھا گیا۔ عدالت پر مکمل اعتماد کا مثبت طرزعمل خصوصاً عمران خان کا بہت موثر رہا، حالانکہ مسلسل خدشہ رہا کہ خان صاحب کسی بھی وقت عدالت پر نہ برس پڑیں کہ ان سے اس کی توقع کی جاسکتی تھی۔
3۔ عدلیہ نے پاناما کیس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے عوام کی توقع کے مطابق آئین و قانون کی روشنی میں ایسی غیر روایتی اپروچ اختیار کی جو جس کا ابلاغ اعلیٰ ترین سطح پر آئین کی آرٹیکل 187اور 184 کا سہارا لے کر عدالتی عمل کو شفاف اور عوام کی نظر میں بااعتماد بنانے کیلئے جو Innovativeاپروچ اختیار کی، وہ ایک ہائی کیپسٹی اور مکمل بااعتماد جے آئی ٹی کی صورت میں سامنے آئی۔
4۔ پاناما انکشافات اور کرپشن کے جملہ زیر بحث الزامات پر عوام الناس کی بڑی اکثریت (محتاط اندازے کے مطابق کہ اشاریے اوراظہاریے واضح ہیں سب سے بڑا جی ٹی روڈ شو کے بعدعوام الناس ہی کیا حکومت کے درمیان کی ملک گیر خاموشی) کے یقین کو پختہ بنانے میں متذکرہ تین نہیں تو دو محرکات کے برابر کام ملزم شریف فیملی کے خلاف خود فیملی ممبر اور اس کے حکومتی ابلاغی معاونین کی تضاد بیانی نے کردیا۔ عبرتناک بات یہ ہے کہ یہ تباہی بڑی محنت اور سرمایہ بہا کر خود خریدی گئی۔ امر واقع یہ ہے کہ شریف فیملی کی مقدمے پر تضاد بیانی پھر سب سے بڑھ کر جناب نوازشریف کی بطور وزیراعظم اور لیڈر آف دی ہائوس اسمبلی میں تقریر، جسے ان کے وکیل نے سیاسی قرار دیتے ہوئے عدالتی کارروائی میں ججز سے سنجیدہ نہ لینے کی درخواست کی، انتہائی سنجیدہ اور مکمل رسمی عدالتی کارروائی میں ایسا تباہ کن فقرہ تھا جو ابلاغی معاونت کے مثبت پہلوئوں کو لمحوں میں چاٹ گیا۔ اس نے عوام الناس میں وکلاء پروفیسروں، اعلیٰ پیشہ وروں، صحافیوں اور خود بڑے صاحبان رائے کے شریف فیملی کے خلاف منفی بن جانے والی رائے کو مکمل پختہ کردیا۔ یہ قانونی اعتبار سے تو مہلک تھا ہی اس نے مخالف بنتی رائے عامہ کو تیز اور بےلچک کرنے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وزیراعظم ہائوس میں بتایا گیا ابلاغی معاونت کا میڈیا سیل ڈان لیکس کے تناظر کے علاوہ صحافیوں کا مول ڈالنے اور اپنے اناڑی پن پر بھی عوام الناس میں اپنا اعتماد تیزی سے کھوتا رہا۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق، مختلف چینلز نے اپنی اپنی پالیسی کے مطابق اپنا جھکائو اپوزیشن یا شریف فیملی کی جانب رکھا۔ دونوں کے بیانیے اور مجموعی ابلاغ تواتر سے عوام الناس تک پہنچتا رہا۔ حالات حاضرہ کی جاری صورت میں رائے عامہ کی تشکیل کی یہ اسٹوری میڈیا اسکالرز، صحافیوں اور خود حکومت و سیاسی جماعتوں اور ان کارکنوں کے لئے بڑا سبق ہے۔

تازہ ترین