• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات ہم نے خیبر پاس پر گوشت کے سلگتے ہوئے پھول کاشت کئے۔ لپکتے ہوئے شعلوں میں لٹکے ہوئے مسلم دنبے سے نکلتی ہوئی خوشبو کی لپٹیں معدے میں طبلے بجا رہی تھیں مگر ہم خیبر پار کے مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ لندن میں رات کے دو بج رہے تھے۔ چانپوں اور تکوں کے بیچ صدر ٹرمپ نئی افغان پالیسی کا اعلان کر رہا تھا۔ فاکس نیوز کے تبصروں کا دھواں آنکھوں تک آگیا تھا۔ زبان پریشانی کا ذائقہ چکھ رہی تھی۔ میرے ساتھ ساتھ امجد علی خان، شعیب بٹھل، شوکت بھائی کے ماتھوں پر فکرمندی کی شکنیں گہری ہورہی تھیں۔ کڑاہی سے نکل کر پلیٹ میں پہلا سوال یہ آیا کہ یہ اچانک صدر ٹرمپ کو افغانستان فتح کرنےکا خیال کیسے آگیا۔ سولہ سال سے امریکی فوجیں وہاں موجود ہیں۔ پاکستان کی شمالی سرحدوں پر آگ پر گوشت جل رہا ہے۔ دھویں سے مل کر آنسوئوں میں گریس بن چکا ہے۔ پشاور کے کلاس روم کی دیواروں پر بچوں کے جسموں کے لوتھڑے ابھی پوری طرح اترے نہیں۔
سولہ سال سے خیبر پار امریکہ اپنے حمایتیوں سمیت طالبان سے موت موت اور بم بم کھیل رہا ہے۔ مگر طالبان ہیں کہ شکست مانتے ہی نہیں۔ اعلان ِ فتح کی کوئی صورت نہیں بن سکی۔ اگرچہ امریکہ طالبان کے ساتھ کئی مرتبہ مذاکرات کی میز پر بھی بیٹھ چکا ہے۔ اگر یادداشت بخیر ہے تو قطر میں بھی یہ وقوعہ ہوا تھا۔ طالبان ماسکو کانفرنس میں بھی شریک ہوئے تھے۔ پاکستان میں بھی سہ ملکی میٹنگز میں طالبان کے نمائندے شامل ہوتے رہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ طالبان افغان ہوں پا پاکستانی امریکی ہوں جاپانی وہ دہشت گرد ہیں۔ ہم پاکستانیوں کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔
ہم سب اس بات پر متفق تھے مگر چند مرچوں بھرے سوال سے منہ جل کر رہ گیا کہ افغان حکومت نےان کو شرکتِ اقتدار کے لئے کئی بار دعوت دی ہے۔ اپنے گلبدین حکمت یار امریکہ کی نظر میں ابھی دہشت گرد تھے، ابھی مجاہد بن گئے۔ کچھ ہی دن ہوئے ہیں افغان حکومت اور طالبان کی تنظیم حزب اسلامی کے درمیان باقاعدہ معاہدہ امن و آشتی طے پایا ہے۔ وہاں لاکھوں طالبان ہیں بلکہ افغانستان کے ستر اسی فیصد حصے پر وہی قابض ہیں مگر ان پر کبھی ڈرون حملہ نہیں کیا گیا۔ ڈرون حملے صرف پاکستان میں ہوتے رہے جہاں ابھی تک ڈرون حملوں میں مرنے والے گناہگاروں اور بے گناہوں کی لاشیں ڈی این اے چیک کرانے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہمیں تسلیم ہے بلکہ ہم یقین کی منزل پر ہیں کہ تمام طالبان دہشت گرد ہیں سو ان کے خلاف جنگ کی جائے مگر امریکہ نے جنگ کے لئے یہ وقت کیوں موزوں سمجھا۔ ایک خیال یہ تھا کہ شاید شمالی کوریا جس کی پشت پر چین اور روس دونوں ہیں وہ صدر ٹرمپ کی آوارہ زبانی کے سبب امریکہ کے ساتھ ایٹمی جنگ کی دھمکی در دھمکی میں الجھ چکا ہے اور اِسی مشکل صورتحال سے نکالنے کے لئے صدر ٹرمپ سے نئی افغان پالیسی کا اعلان کرایا گیا ہے تاکہ امریکی عوام کو کسی اور طرف متوجہ کیا جائے اور اِس کام کے لئے پاکستان آسان ترین ٹارگٹ تھا۔ فاکس نیوز کے مطابق چار ہزار نئے امریکی دستے افغانستان بھیجے جارہے ہیں اور نیٹو کے تمام ممالک سے فوجیں بھیجنے کےلئے کہا جارہا ہے۔ امریکی میڈیا یہ بھی کہہ رہا تھا کہ صدر ٹرمپ پاکستان کے ساتھ ساتھ طالبان کی خفیہ امداد کرنے پر بھارت کی بھی سرزنش کرے گا مگر صدر ٹرمپ نے ایسا نہیں کیا۔ اگرچہ پاکستان کی طرف سے اس بات کے بے شمار ثبوت پیش کئے گئے تھے مگر امریکی صدر نے انہیں درخوراعتنا نہیں سمجھا۔ شاید اس کی وجہ امریکہ میں متحرک انڈین لابی ہے۔ پینٹاگون کے چھ عہدیداران تین دن جی ایچ کیو میں گزار کر گئے۔ انہیں وزیر ستان بھی دکھایا گیا۔ یہ یقین دلانے کی کوشش بھی کی گئی کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان نے مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ کی تقریر کا خلاصہ یہی تھا کہ اگر امریکہ افغانستان میں جنگ نہ جیت سکا تو اس کا ذمہ دار پاکستان ہوگا یعنی بین السطور امریکہ نے پاکستان کو پھر وہی دھمکی دی ہے جو صدر پرویز مشرف کو گیارہ ستمبر کے فوراً بعددی گئی تھی۔صدر مشرف نے ہتھیار ڈال دئیے تھے مگر سنا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پینٹاگون کے جنرلز کو پوری طرح سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تمہارا ڈومور کا مطالبہ غلط ہے۔ تمہارے الزامات درست نہیں ہیں۔ ہم دہشت گردی کی جنگ میں تمہارے ساتھ ہیں اور پاکستان میں موجود بلا تفریق آخری دہشت گرد کو بھی ختم کر کے دم لیں گے لیکن ہماری افواج افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ لڑنے نہیں جا سکتیں۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں کئی طرح کے طالبان موجود ہیں۔ زیادہ تر طالبان ان دنوں بھارتی سرپرستی میں وہاں کام کررہے ہیں۔ جن کے بارے میں افغان حکومت کے پاس کافی معلومات ہیں۔ ملا فضل اللہ وغیرہ کو بھارت نواز طالبان نے ہی اپنی پناہ میں رکھا ہوا ہے۔ کچھ طالبان ایسے بھی جو تحریک طالبان پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو امریکی اور بھارتی ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ مگر ہم انہیں دہشت گرد کہتے ہیں۔
افغان محاذ ِ جنگ کو پھر سے گرم کرنے کا ایک سبب سی پیک بھی ہو سکتا ہے۔ گوادر سے کاشغر کا تعلق امریکیوں کی آنکھ میں بری طرح کھٹک رہا ہے۔ انہیں اس بات کی تکلیف بھی ہورہی ہے کہ پاکستانی لوگ چینی زبان کیوں سیکھ رہے ہیں۔حیرت ہے کہ چینیوں اور روسیوں کو تو کبھی اس بات کی تکلیف نہیں ہوئی کہ ہم پاکستانی انگریزی کیوں پڑھتے اور بولتے ہیں۔ایک خیال یہ بھی سامنے آیا کہ سی پیک کو روکنے کے لئے کچھ ریاستوں نے امریکہ کو باقاعدہ فنڈنگ فراہم کی ہےمگر میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ امریکہ سی پیک کا مخالف نہیں ہوسکتا کیونکہ اُس میں امریکہ کے بھی بہت سے مفادات موجود ہیں۔
بہر حال یہ بات طے ہے کہ پاکستان کی بھلائی اسی میں ہے کہ پاکستان ایک ایک دہشت گرد تلاش کرکے اسے نشانہ عبرت بنا ئے۔ امریکہ کےلئے نہیں اپنے عوا م کے لئے اپنی قوم کے لئے ایک روشن اور درخشاں پاکستان کے لئے۔ جہاں تک افغانستان کی بات ہے کہ افغانستان کے مسئلہ کا کوئی فوجی حل موجود نہیں۔ وہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے مذاکرات کی میز پر حل ہونا چاہئے۔

تازہ ترین