• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں 90فیصد پانی پینے کے لائق نہ ہونے کے بارے میں سپریم کورٹ (کراچی رجسٹری) میں سماعت کے دوران تین رکنی بنچ کے ریمارکس اور پاکستان آبی وسائل تحقیقاتی کونسل (پی سی آر ڈبلیو آر) کی رپورٹ میں ملک بھر سے جمع کئے گئے پانی کے نمونوں کے 70فیصد کے ناقابل استعمال ہونے کا نتیجہ اخذ ہونا انتہائی تشویشناک صورتحال کے نشاندہی کررہا ہے جبکہ اس رپورٹ میں بھی سندھ میں پانی کی صورتحال کو زیادہ سنگین قرار دیا گیا ہے۔ قبل ازیں فراہمی و نکاسی آب کمیشن کی ٹاسک فورس نے سندھ ہائیکورٹ میں اپنی جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں صوبہ سندھ کے 14اضلاع میں 83فیصد پانی کے نمونوں کو انسانی جانوں کیلئے خطرناک قرار دیتے ہوئے پانی میں انسانی فضلہ پائے جانے کا انکشاف بھی کیا گیا تھا۔ چند روز قبل سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں وطن عزیز میں استعمال ہونے والی پانی میں آرسینک کے اجزاء میں اضافے کی اطلاع دی جا چکی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وطن کے وسائل پر قابض اشرافیہ بدترین طبقاتی امتیاز و تفریق کی راہ پر خاصا آگے بڑھ چکی ہے۔ سفارش اور رشوت پیش نہ کرسکنے والے غریب آدمی کیلئے روزگار کا حصول انتہائی مشکل بنادیا گیا ہے۔ عوام کیلئے روٹی کا حصول مشکل، تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولتوں تک رسائی پہلے ہی دشوار تھی مگر اب صاف پانی کا حصول بھی انکے حقوق کی فہرست سے خارج محسوس ہورہا ہے۔ جس ملک میں دہشت گردوں کے صفایا کرنے کی مہم چل رہی ہو، اس میں ان اسباب کے خاتمے پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے جو نوجوانوں میں غصے کا رجحان بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ نساسک (NSUSC) کی رپورٹوں پر سپریم کورٹ کے اس تبصرے پر حکومتی حلقوں سمیت تمام صاحبان فکر کو غور کرنا چاہئےکہ ’’جب ثمرات عوام تک نہ پہنچیں تو آڈٹ رپورٹوں کا کیا فائدہ، عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہونا چاہئے‘‘۔ پانی کی کمیابی، نایابی اور مضر صحت ہونے کے مسائل حل کرنے کی تدابیر پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین