• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت نے مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کے لئے بجلی اور گیس مزید مہنگی کر دی ہے اسے ضمنی بجٹ کہنا بے جا نہ ہو گا۔ سردی کا موسم قریب آتے ہی ہر سال گیس کے نرخوں میں اضافہ ایک روایت بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لائن لاسز کے نام پر جو واپڈا کے ناقص نظام اور اس کے اہلکاروں کی غفلت کا نتیجہ ہوتے ہیں، خسارہ عوام کی جیبوں سے پورا کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اس وقت بجلی کی ترسیل میں ہونے والے لائن لاسز اور گیس کے ناقص نظام کی وجہ سے توانائی کے شعبے کو 196ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو 8.162 ارب کا نقصان ہےجسے ایک سال میں بجلی کے صارفین سے وصول کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تقسیم کار کمپنیوں کو مزید 24ارب روپے صارفین کے کھاتے میں ڈالنے کی بھی اجازت دی ہے یہ رقم نااہل تقسیم کار کمپنیوں کے مستقل بند ہونے سے اس کے دائرہ کار میں آنے والے صارفین سے وصول نہیں کی جا سکتی لہٰذا یہ بوجھ بھی تمام صارفین پر بانٹ دیا گیا ہے۔ دوسری طرف آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے سوئی نادرن گیس کی قیمتوں میں 65.60روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اٗضافہ کر دیا ہے اس کے نتیجے میں گیس کی نئی قیمت21.455 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک جا پہنچی ہے۔ علاوہ ازیں اوگرا نے3.6 فیصد (10ارب روپے کے لگ بھگ) شرح سے یو ایف جی خسارہ بھی صارفین پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئے ٹیرف کے مطابق 100یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو بجلی 7روپے 60پیسے، 200یونٹ تک کے صارفین کو 11روپے، 300یونٹ تک 12روپے 50پیسے فی یونٹ ملے گی، 700یونٹ تک کے صارفین کو 13روپے 80پیسے اور 700سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والوں کو 50روپے 50پیسے فی یونٹ ادا کرنا ہوں گے اگر ہمسایہ ممالک سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو بھارت میں اس وقت ایک سے 50یونٹ والے صارفین کے لئے بجلی کے نرخ 3.85روپے، 150یونٹ تک کے لئے 6.10روپے 300یونٹس تک کے لئے 6.40، 500یونٹس تک کے لئے 6.70، اور 500سے اوپر کے صارفین کے لئے 7.15روپے نرخ مقرر ہیں جو ہمارے ٹیرف کے نصف سے بھی کم ہیں۔ نیپرا کے مقرر کردہ بجلی کے ہوش ربا نرخوں کے حوالے سے قومی اسمبلی کو وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت برائے توانائی نے اپنی صفائی میں بتایا کہ بجلی کے صارفین سے 9ٹیکسز، فیس اور سرچارجز وصول کئے جا رہے ہیں یہ صورت حال اس قدر تکلیف دہ ہے کہ تنخواہ دار اور غریب طبقہ جو پہلے ہی مہنگائی سے تنگ آیا ہوا ہے، مہنگائی کے اس نئے طوفان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا، پھر بجلی کے بل بھی اکثر غلط ہوتے ہیں کیونکہ اہلکار میٹر ریڈنگ کے لئے گھر گھر جانے کی بجائے دفتروں میں بیٹھ کر ہی بل بنا لیتے ہیں اور جمع کرانے کی مہلت بھی دو تین دن سے زیادہ نہیں دی جاتی۔ بل ٹھیک کرانے کے لئے لوگوں کو بجلی کے دفتروں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ حکومت کو اس ساری صورت حال کا جائزہ لینا چاہئے۔ اس کی غلطیوں اور ناقص منصوبہ بندی سے بجلی اور گیس کے محکموں کو جو خسارہ اٹھانا پڑتا ہے وہ عوام پر ڈال کر انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا نہیں دینی چاہئے۔ اس وقت بجلی کے ایسے منصوبوں کیلئے بھی پیشگی سرچارج وصول کیا جا رہا ہے جن کا عملی طور پر کوئی وجود ہی نہیں۔ صرف ایک خیال ہے کہ مستقبل میں ان پر کام شروع کرنا پڑے گا۔ بجلی گھریلو صارفین کے علاوہ صنعت و زراعت اور دوسرے مقاصد کیلئے بھی ایک ضرورت کا درجہ رکھتی ہے اسے صارفین کی رسائی سے باہر نہیں ہونا چاہئے۔ ملکی ترقی اور عوام کی سہولت کے لئے ضروری ہے کہ بجلی کے نرخ غیر معمولی طور پر نہ بڑھائے جائیں اور جو بڑھا دیئے گئے ہیں انہیں کم کیا جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر زیادہ توجہ دی جائے اس وقت ہائیڈل پاور اور سورج ہوا اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے رینٹل پاور پلانٹس اور تیل اور گیس سے بجلی بنانے پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے جس سے بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ ترقی کیلئے بجلی اتنی ضروری ہے کہ بعض ملکوں نے صنعتی اور زرعی مقاصد کیلئے اسے مفت فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، پاکستان کو بھی ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہئے۔

تازہ ترین