• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رائٹ کا بیانیہ یا لیفٹ کا بیانیہ روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن

سعادت حسین منٹو نے کہا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ سچ شراب خانے میں شراب پی کر بولا جاتا ہے اور سب سے زیادہ جھوٹ عدالتوں میں مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بولا جاتا ہے۔ میں اس میں ذرا سے اضافے کی جسارت کروں کہ دنیا میں سب سے زیادہ بے وقوف عوام کو بنایا جاتا ہے خواہ وہ کسی آمر کی طرف سے ہو یا سیاسی لیڈر کی جانب سے۔ اس طرح آج کل پاکستان کی سیاست میں بیانیہ بدلنے کا بڑا ذکر ہوتاہے، کوئی کہتا ہے فلاں کا بیانیہ تبدیل ہوگیا، اس لئے اس کی مقبولیت میں کمی آگئی ہے کوئی کہتا ہے فلاں معاملے پر کسی دوسرے کا کوئی بیانیہ نہیں ہے۔ میں یہاں البتہ سوسائٹی کے اس مٹھی بھر حصے کی بات نہیں کر رہا جو کسی بھی بیانیے ہی کے خلاف ہیں۔وہ آئیڈیالوجی یا کسی بھی اصولوں یا قواعد کے سیٹ کوانسانی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ایسی کوئی انارکسٹ بحث آج کا موضوع نہیں ہے۔ میری گزشتہ روز اپنے ایک دوست سے بات ہو رہی تھی جو لندن میں30سال سے زائد کا عرصہ گزار کے مستقل طور پر لاہور منتقل ہو گئے ہیں وہ ایک دلچسپ آدمی ہیں بلکہ کریکٹر ہیں جو عام آدمی کی پکڑائی سے بالا ہیں، ذہین اور ہوشیار آدمی ہیں، شاید دو ایک ایم اے بھی کر رکھے ہیں، لندن میں نہ جانے کیا کرتے تھے۔ آج کل لاہور میں خوبصورت ڈھابہ چلاتے ہیں۔ یونیورسٹی میں ہم ایک ہی دور میں لیفٹ کا کیڑا پالے ہوئے تھے۔ باتوں میں کہنے لگے اب اپنے لیفٹ کے پرانے لوگوں کی حالت تو بہت پتلی ہو چکی ہے کچھ تو ماضی میں ہی رہتے ہیں۔ اس میں سے باہر نہیں آنا چاہتے اور کچھ اپنی بے بسی اور فرسٹریشن کی دوا مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف سے لینے لگے ہیں۔ اس لحاظ سے لاہور میں بھی مزہ نہیں آرہا۔ ویسے تو ہم سب عشاق لاہور ہیں۔ کہتے ہیں وسائل اور انصاف اگر سب کو میسر ہو تو پاکستان جیسا کوئی ملک نہیں اور لاہور جیسا کوئی شہر نہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تولاکھوں لوگوں کو ملک چھوڑ کے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ آج ہم جس بیانیے کا ذکر چھیڑ بیٹھے ہیں بایاں بازو، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ یا تحریک انصاف سب کا تعلق اسی بیانیے سے ہے۔ یہ بیانیہ کس فلسفے یا مرض کا نام ہے کہ گزشتہ ہفتے لاہور کے حلقہ120میں بھی لوگ بیانیے کی بات کر رہے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ، سیاسی پارٹیوں کا بیانیہ، کسی لیڈر کا بیانیہ عوام کا بیانیہ وغیرہ۔ مجھے اتنی سمجھ ضرور ہے کہ اس اصطلاح کی بہرحال عوام کو سمجھ نہیں ہے، حلقے میں43 امیدوار تھے۔ گویا43بیانیے تھے۔41کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں یعنی41بیانیے مسترد ہوگئے۔ بظاہر باقی دو بیانیے چل رہے تھے جس طرح انقلاب اور جمہوریت کی اصطلاحات کو سیاستدانوں نے خوبMis use کیا ہے اسی طرح آج کل بیانیہ کی باری ہے تاکہ عوام اپنے اصل مسائل پر بات نہ کریں۔ آپ دیکھیں ایک حلقہ نمبر120تین امیداور کو خالصتاً دائیں بازو کی انتہا پسند سیاست کا حوالہ اور پس منظر رکھتے تھے۔
ملی مسلم لیگ اور لبیک یارسول اللہ پارٹی نے ملا کر13000ووٹ لئے۔ جماعت اسلامی اس میں شامل نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے اتنے ایک حلقے میں مقیم انتہا پسند اذہان، یہ بھی ایک بیانیہ رکھتے ہیں۔ ممتاز قادری ان کا ہیرو ہے یا پھر جماعت الدعوۃ ان کا بیانیہ ہے۔ دوسرا مولانا خادم حسین رضوی کا بیانیہ ہے ۔ان سے لے کر ٹاپ کے ووٹ لینے والے دونوں امیدواروں تک صرف دائیں بازو کی سیاست کے مختلف شیڈز(Shades) رہ گئے ہیں۔ لب لباب یہ کہ بیانیہ ایک ہی باقی رہ گیا ہے۔ ساری سیاست دیوار کے ایک طرف بیٹھے لوگوں کی ہے۔ دوسرا کوئی بیانیہ ہی نہیں۔ یعنی سب پست کی گریبانی ایک ہی کیمپ میں رہ گئی ہے۔ سب اسی سٹیٹس کو کے حامی ہیں۔ اسی بوسیدہ نظام کی کتر چھانٹ ان کا بیانیہ ہے۔ دیوار کی دوسری طرف کا سارا میدان خالی ہے۔ جن کی حالت زار کا میں نے اپنے دوست کے حوالے سے ذکر کیا۔ ان کا ترقی پسند یا سوشلسٹ بیانیہ ہو سکتا ہے نہ ریاست انہیں مضبوط دیکھنا یا ہوتے دیکھنا پسند کرتی ہے نہ ہی وہ مذہبی انتہا پسند بیانیہ رکھنے والا ٹولہ انہیں دیکھ سکتا ہے ۔ان ترقی پسندوں کی حالت پاکستان میں برما کے روہنگیا مسلمانوں جیسی ہے۔ اسی لئے اب پاکستان میں ان کی کوئی سیاست بھی نہیں بچی اور ان کا کوئی اثرو رسوخ بھی نہیں ہے۔ صحیح پوچھیں تو پوری ریاست اور عوام رجعت پسند ذہن کی طرف مائل ہو چکی ہے۔ بقول فیض ’’جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو‘‘ اب وہ سمیٹنے والی کیفیت بھی ذرا دھندلی ہو چکی ہے۔ جو سنگ بچے ہیں کوئی پی ٹی آئی کی پناہ میں اور کچھ مسلم لیگ کی چھتری تلے۔ اب کیا صرف یہی بیانیہ رہ گیا ہے یا کیا سارے فسانے میں کچھ ایسا بھی ہے جس کا ذکر جان بوجھ کے چھپایا اور دبایا جا رہا ہے۔ وہ ہے عوام کا بیانیہ اور عوام کے لئے بیانیہ جس کا ذکر جان بوجھ کے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ عمران خان کا نصف بیانیہ جس میں اس کے ماننے والے کشش محسوس کرتے ہیں وہ ہے صرف تنقید۔ دوسرا نصف بے جان اور بے دلیل ہے۔ یعنی یہ بوسیدہ نظام ٹھیک کیسے ہوگا وہ اسی گھسے پھٹے نظام میں ہی پیوندکاری کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے جب اگلی بات کرتا ہے تو طالبانی پناہ گاہوں اور غاروں میں چلا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا کوئی نیا بیانیہ نہیں ہے۔ وہ ابھی تک اپنے شہیدوں کو بیچنے کے چکر میں ہے۔ مسلم لیگ کا کاروباری Narrative ہے جو کہ ملکی نہیں ذاتی نوعیت کا ہے۔ ایسے میں درست بیانیہ کیا ہو سکتا ہے۔ یقیناً جو عوام کو ملک کے دستیاب وسائل میں حصہ دار بنائے گا ان کی محنت کا صحیح اجر دلائے گا تعلیمی نظام کا ماخذ جدید سائنسی علوم کو بنائے گا جو ترقی یافتہ ممالک کے رائج نصاب کے مطابقت پیدا کرے جو بیانیہ صحت و رہائش کی ضمانت بنے بشرطیکہ کہنے والے عوام کو یقین دلاسکے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں ایسا کر دکھانے کی صلاحیت اور سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں۔ عوام کو صرف آدھا سچ نہ دکھایا جائے۔

تازہ ترین