• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیااسلامی سال …امیدیں اور عزم نو صدائے تکبیر …پروفیسر مسعود اختر ہزاروی

اسلامی تقویم کا1438 واں سال اپنے دامن میں کئی تلخ یادیں لئے رخصت ہوااور نیا ہجری سال 1439 شروع ہوچکا ہے۔ ایک ہندسہ تبدیل ہونے سے تاریخ کے اک نئے باب کا آغاز ہوگیا قمری ہجری تقویم کو اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہےسن ہجری کی ابتداء یوں ہوئی کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط روانہ کیے جاتے ہیں، مگران خطوط پر تاریخ درج نہیں ہوتی حالانکہ تاریخ لکھنے کے بے شمار فوائد ہیں اور ریکارڈ کے محفوظ رکھنے میں کافی سہولت رہتی ہے، آپ نے خط کس دن تحریر کیا، کس دن روانہ کیا، کب پہنچا، کس دن حکم جاری ہوا، کس دن اور کس وقت سے اس پر عمل کا آغاز ہوا، ان سب باتوں کے جاننے اور سمجھنے کا دارومدار تاریخ لکھنے پر موقوف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی اس مدلل بات کو بہت معقول سمجھا اور بہت سراہا، فورا مشورے کے لیے اکابر صحابہ کرام ؓ کی ایک میٹنگ بلائی اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ مفید رائے مجلس ِمشاورت میں اکابر صحابہ کرام ؓکے سامنے رکھی، تمام صحابہ کرام ؓکوبھی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ بات بہت پسند آئی، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں مشورہ طلب کیا کہ اسلامی تقویم کا آغاز کب سے ہو؟ صحابہ کرام نے اس سلسلے میں اپنی اپنی آراء دیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہجرت نبوی سے اسلامی سال کی ابتداء کا فیصلہ صادر فرمایا۔ قمری تقویم کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہےسال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔ہمیں اک طرف خوشی ہے کہ زندگی میں ایک نیا سال دیکھنا نصیب ہوا اس کے ساتھ ساتھ یہ فکر بھی ہے کہ خدادا عمر میں سے ایک اور سال کم ہوگیا۔ بندہ مومن کبھی غفلت شعار نہیں ہوا کرتا جب نئے سال کا ہلال اس کی نظروں کے سامنے نمودار ہوتا ہے تو وہ اپنے کریم رب کی بارگاہ سے خیر و برکت اور عافیت کی دعائیںمانگتاہے۔ جب سال ختم ہورہا ہوتا ہے تو پھر بھی وہ اپنا محاسبہ کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارے پیارے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ’’ حاسبوا قبل ان تحاسبوا‘‘ کہ اپنا احتساب کیا کرو قبل اس کے کہ آپ سے حساب لیا جائےبہر کیف دنیا بھر کے انسانوں اور خصوصا فرزندان اسلام کو اس موقع پر نیک خواہشات اور دعاؤں کے ساتھ نئے اسلامی سال کی دلی مبارک باد قبول ہو اسلامی سال کا پہلا مہینہ’’ محرم االحرام‘‘ جبکہ آخری مہینہ ’’ذوالحج ‘‘ ہے۔ ان دونوں مہینوں کے یکے بعد دیگرے آنے کی ایک فکر انگیز حکمت یوں نظر آتی ہے کہ ذوالحج کی دس تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ الاسلام اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ الاسلام کو حکم الٰہی کی تعمیل میں قربان کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے عمل سے ملت ابراہیمی کو یہ پیغام دے دیا کہ اللہ کریم کی رضا جوئی کیلئے تمہیں اپنی زندگی کا سب سے قیمتی متاع بھی اللہ کے رستے میں قربان کرنا پڑ جائے تو دریغ مت کرنا۔ حضرت اسماعیل علیہ الاسلام ذوالحج کی دس تاریخ کو آداب فرزندی بجا لاتے ہوئے اپنی گردن چھری کے نیچے رکھ کر امت مسلمہ کے ہر فرد کو یہ عملی سبق دے گئے کہ ’’ اگر تو اللہ کی رضا کے تحت زندگی گزارنا چاہتا ہے تو پھر تیری گردن حکم الہی کی تعمیل میں چھری کے نیچے بھی آجائے تو سرکنی نہیں چاہئے۔ ہاں۔چھری رکے ۔تو ۔رکے۔اسی طرح محرم الحرام کا ہلال جب مغرب کی بلندیوں سے جھانکتا ہے تو اس کے ساتھ ہی کئی خونی داستانیں بھی پھر سے تازہ ہوجاتی ہیں۔ اس ماہ کی پہلی تاریخ کو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دردناک شہادت کا دن ہے۔ محرم الحرام کی دس تاریخ کو شہزادہ گلگوں قبا، جگر گوشہ حضرت فاطمہ الزہرؓہ، نور نگاہ علی مرتضیؓ ، نواسہ مصطفیﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کرب و بلا کے میدان میں اپنی گردن تلوار کے نیچے رکھ کر اپنے نانا پاکﷺ کی امت کے ایک ایک فرد کو یہ پیغام دے گئے کہ ’’ اگر تو چاہتا ہے کہ میرے ناناپاک ﷺ کا دین سلامت رہے۔ اس کے تقدس پر آنچ نہ آسکے۔ اس چمنستان اسلام کو فسق و فجور کی آندھیاں نہ اجاڑ سکیں تو پھر اکیلے اپنی جان ہی نہیں بلکہ ننھے علی اصغر، جوان علی اکبر، عون و محمداور قاسم و عباس رضی اللہ تعالی عنہم جیسے نونہال بھی قربان کرنے پڑ جائیں تو دریغ مت کرنا‘‘ حضرت علامہ اقبالؒ نے اسی حقیقت کو یوں قلمبند کیا ہے کہ
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ
حالات حاضرہ کے تناظر میں بحیثیت مسلمان ہمارا سال غموں سے شروع ہوتا ہے اور قربانیوں پر ختم ہوتا ہے۔ کشمیر، فلسطین، شام، عراق، افغانستان، یمن،برما اور دیگر مقامات پر مسلمان ہونے کے ناکردہ گناہ کی سزا کے طور پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں کو شہید اور عزت مآب ماؤں بہنوں کی عزتوں کو تار تار کیا جا رہا ہے معصوم بچوں کی چیخ و پکار اور زخموں سے چھلنی وجود بھی ظالموں کے دلوں کو نرم نہیں کر پاتے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ صرف سال گزرنے اور بدلنے سے کچھ تبدیل نہیں ہوتا جب تک کہ ہم خود عزم مصمم کے ساتھ تبدیل ہونے کا ارادہ نہ کریں۔ہمیں اس طرف بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ پچھلے سال ہمارے کون کون سے عزیز واقارب اور دوست ہم سے بچھڑ کر اگلے جہان کی طرف روانہ ہو گئے۔ جو چلے گئے انہیں دعائے مغفرت میں یاد رکھیں۔ خود بھی فکر آخرت کے ساتھ زندگی کا ہر لمحہ گزاریں کیونکہ عنقریب ہم نے بھی اس دار فانی کو چھوڑ کر’’ دار بقا‘‘ کی طرف کوچ کرنا ہے۔ جب ایک سال ختم ہوتا ہے اور نئے سال کا کیلنڈر سامنے آتا ہے تو ہر باشعور شخص پچھلے سال کی کوہتاہیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لیتا ہےارادہ کرتا ہے کہ آئندہ اس کمی کو پورا کرے گاکچھ تو وہ ہیں جو عزم مصمم کے ساتھ اپنے ارادوں کو حقیقت کا روپ دے دیتے ہیں۔ لیکن اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو چند دن گزرنے کے بعد پھر پہلی ہی روش کو اختیار کرلیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے اخلاقی زوال کا شکار ہو چکے ہیں اس وجہ سے بیشمار مسائل نے جنم لیا۔ نئے سال کے موقع پر نئے عزم کے ساتھ تہیہ کر لیں کہ ہم نے جھوٹ، مکر و فریب، تنگ نظری، فرض ناشناسی، بدخواہی اور بہتان تراشی کا اپنے رویوں سے خاتمہ کرکے اپنے آپ کو اوصاف حمیدہ سے متصف کرنا ہے۔ دعا ہے کہ سال 1439 ہمارے لئے خیر وعافیت کا سال ثابت ہو۔

تازہ ترین