• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت سندھ نےگیس نظام کو علیحدہ کرنے کی مخالفت کردی

اسلام آباد(خالد مصطفیٰ)حکومت سندھ نے گیس نظام کو علیحدہ کرنے کی مخالفت کردی ہے۔اس بات کا انکشاف حکومت سندھ کی جانب سے وزارت پیٹرولیم اور آئی پی سی سی کو لکھے گئے خط میں ہوا ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ صوبوں کو برابری کی ذمہ داری تفویض نہ کی گئی تو سندھ حمایت نہیں کرے گا۔تفصیلات کے مطابق، سندھ نے ملک بھر میں گیس کے نظام کوالگ ٹرانسمیشن اور ترسیلی نیٹ ورکس پر علیحدہ کرنے کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اگر ایسے کسی اقدام سے قبل آئل اور گیس ریگولیٹری کنٹرول اور مینجمنٹ نے ضروری قانونی اصلاحات نہ کیں جس سے صوبوں کو برابری کی ذمہ داری تفویض نہ کی گئی تو سندھ اس کی حمایت نہیں کرے گا۔مزید یہ کہ اس طرح کا اقدام مفاد عامہ کی کونسل سے منظور شدہ ہونا چاہیئے ، جس میں تھرڈ پارٹی کے قابل رسائی قوانین، لائسنسنگ کے قوانین اور طریقہ کار، ٹیرف قوانین اور طریقہ کار، صارفین کے ٹیرف اور سبسڈی پالیسی، صلاحیت کی تخصیص کا طریقہ کار،گیس کی پیداوار والے صوبوں کی شناخت اور انہیں گیس کے استعمال کا پہلا حق دینا اور اسی طرح مرحلہ وار ترتیب سے صوبوں کو تفویض کرناشامل ہونا چاہیئے۔

دریں اثناء وفاقی دارالخلافہ، آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کو ایل این جی، ایل پی جی یا ایل پی جی ایئرمکس گیس فراہم کی جائے اور صوبوں میں قدرتی گیس کی کمی کواگر ضرورت پڑے تو ایل این جی کے ذریعے پورا کیا جائے۔ان باتوں کا انکشاف حکومت سندھ کے وزارت پیٹرولیم اور قدرتی ذخائراور بین الصوبائی رابطہ کمیٹی (آئی پی سی سی)کو تحریر کیے گئے حیثیتی پرچے میں سامنے آئی ہے، جس کی کاپی دی نیوز کے پاس بھی موجود ہے۔ایک اور دستاویز جس کی کاپی دی نیوز کے پاس موجود ہے ، اس کے مطابق، گیس سیکٹر قیادت کا پانچواں اجلاس 28ستمبر کو وزیر اعظم سیکریٹیریٹ میں ہوگا۔گیس سیکٹر اصلاحات کے تحت سوئی ناردرن اور سوئی سدرن کو گیس کی 4ترسیلاتی کمپنیوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس کی گیس ٹرانسمیشن کمپنی ایک ہوگی۔مستقبل کے تناظر میں وفاقی حکومت گیس ترسیلاتی کمپنیوں کا کنٹرول صوبوں کو دینے کا ارادہ رکھتی ہے، تاہم ساتھ ہی وہ گیس ٹرانسمیشن کمپنی کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے۔

ورلڈ بینک بھی گیس سیکٹر میں اصلاحات متعارف کرانے میں حکومت کو معاونت فراہم کررہا ہے۔صوبے گیس تقسیم کرنے والی کمپنیوںکا انتظام سنبھالنا نہیں چاہتے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ گیس کمپنیاںخسارے میں جانے والے ادارے ہیں۔گیس کمپنیوں کو100ارب روپے کے لیکویڈیٹی مسائل کا سامنا ہے کیوں کہ گزشتہ 4برسوں میں گیس ٹیرف میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔جبکہ وہ ٹرانسمیشن کمپنی کا کنٹرول بھی چاہتے ہیں۔مفاد عامہ کی کونسل کے 32ویں اجلاس میں جو کہ 25اگست، 2017کو منعقد ہوا تھااس میں قدرتی گیس سے متعلق متعدد ایجنڈے سامنے آئے تھے، جب کہ مفاد عامہ کی کونسل نے  وزارت پیٹرولیم اور بین الصوبائی رابطہ کمیٹی (آئی پی سی سی )کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان تمام امور کا تفصیلی جائزہ لے کر اپنی رپورٹ جمع کرائیں۔آئی پی سی سی نے اپنے منعقدہ 25ویں اجلاس میں جو کہ 7ستمبر، 2017کو منعقد ہوا تھا، اس میںسی سی آئی کی جانب سے بھجوائے گئے قدرتی گیس سے متعلق امور پر تفصیلی بحث کی تھی اور صوبائی حکومتوں سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنی حیثیت سے متعلق آگاہ کریں تاکہ اسے بھی آئی پی سی سی کی رپورٹ میں شامل کرکے سی سی آئی کو بھجوایا جاسکے۔

اس ضمن میں حکومت سندھ نے 14ستمبر، 2017اپنی حیثیت سے متعلق آگاہی فراہم کردی تھی۔جس میں سندھ نے مرکز سے درخواست کی ہے کہ وہ گیس اصلاحات اس انداز میں یقینی بنائیں کہ وہ معدنیات،آئل اور گیس سے متعلق آئینی آرٹیکلز 154،158،161اور 172سے مطابقت رکھتے ہوںاور اس سے پیش ترمتعلقہ ریگولیٹری قوانین میں قانونی اصلاحات کو یقینی بناتے ہوں۔آئین کےآرٹیکل 158کے مطابق، سی سی آئی مجاز فورم ہے جو وفاقی قوانین کی فہرست حصہ دوم سے متعلق معاملات کی پالیسی سازی کرتا ہے۔معدنیات، آئل اور قدرتی گیس کے منصوبے کلی یا جزوی طور پر وفاق کی ملکیت میں ہوتے ہیں۔بجلی اور اس سے متعلقہ معاملات وفاقی قوانین کی فہرست حصہ دوئم کی انٹری نمبر2،3،4اور18 میں سامنے آتے ہیں۔

لہٰذا سی سی آئی، آئل اور گیس کی نگرانی اور اس کے پالیسی معاملات کے فیصلے کرنے کا مجاز فورم ہے۔حکومت سندھ نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل  158کے تحت آئل سے پیدا ہونے والی پوری گیس اور سندھ میں ملنے والے نئے کنویں، سندھ کو تفویض کیے جائیںتاکہ اس کی مختصر اور طویل مدت کی ضروریات فوری طور پر پوری ہوسکیں اور صرف سرپلس گیس ہی صوبائی حکومت کی منظوری سے دیگر حصوں کو فراہم کی جائے۔حکومت سندھ کے خط کے مطابق، صوبائی حکومتیںاپنی گیس کی تفویض اور مینجمنٹ پالیسی جاری کرنے کا اختیار رکھتی ہوں، جس کا اطلاق ہر صوبے پر ہونا چاہیئےاور اسے وفاقی حکومت کا پابند ہونا چاہیئے۔خط میں مزید مطالبہ کیا گیا ہے کہ وفاقی دارالخلافہ، آزاد جموں کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کو ایل این جی، ایل پی جی اور ایل پی جی ایئرمکس گیس فراہم کی جانی چاہیئے، جب کہ صوبوں میں قدرتی گیس کی کمی کواگر ضرورت ہو تو ایل این جی کے ذریعےپورا کیا جانا چاہیئے۔صوبوں کی حیثیت کے مطابق، حکومت سندھ نے مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 172 (3)کے تحت موجودہ ریگولیٹری قوانین میں ترمیم کی جانی چاہیئے تاکہ آئل اور گیس سے متعلق معاملات پر صوبوں کو مشترکہ اور برابری کی بنیاد پر نمائندگی ملنی چاہیئے۔اوگرا آرڈیننس 2002 میں نیپرا ماڈل کی طرز پر ترمیم کی جانی چاہیئے ، جس میں صوبوں کو مشترکہ اور برابری کی بنیاد پر اختیارات کی نمائندگی ملے۔نیپرا ماڈل کے طرز پرنیا ریگولیٹر بنایا جانا چاہیئے ، جس میں صوبوں کی برابرنمائندگی ہو، جو کہ بذریعہ نظامت ریاستی اداروں جیسا کہ او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، پی ایس او، ایس ایس جی سی ایل اور ایس این جی پی ایل کی طرح یقینی ہونی چاہیئے۔

تازہ ترین