• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مالی سال 2016-17کی سالانہ رپورٹ میں ملک کی معاشی صورت حال کو جہاں مجموعی طور پر بہتری کی جانب گامزن قرار دیا ہے وہاں ان عوامل کا ذکر بھی کیا ہے جن کی وجہ سے ملک کے معاشی مستقبل کے بارے میں تشویش کے پہلو نمایاں ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملکی معیشت ترقی کے اعتبار سے پچھلے دس سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اور ٹیکس، ترغیبات کی بدولت زراعت، برآمدی صنعتوں اور سرمایہ کاری کو فائدہ پہنچا ہے لیکن مالی خسارہ روکنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اشیا کی ملکی طلب میں اضافے سے درآمدات کی رفتار بڑھ گئی ۔ اس کے ساتھ ہی ترسیلات زر میں کمی آئی، مالیاتی خسارہ پچھلے مالی سال میں4.6فیصد تھا جو اس سال بڑھ کر جی ڈی پی کا5.8فیصد ہو گیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر غیر ملکی قرضوں کی قسط ادا کرنے کے بعد 19ارب 67کروڑ ڈالر رہ گئے، سٹاک مارکیٹ مسلسل مندی کا شکار ہے ۔ رپورٹ میں پانی کی رسد اور بڑھتی ہوئی طلب کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے آنے والے وقتوں میں پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہ ہونے کا خطرہ ہے۔ رپورٹ کو اگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تجزیوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ تاثر بے جا نہ ہوگا کہ ملک کی معیشت موجودہ غیر مستحکم سیاسی صورت حال کی وجہ سے انحطاط کا شکار ہے۔ یہ سلسلہ میاں نواز شریف کے اقتدار سے ہٹ جانے کے بعد شروع ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر سابق وزیراعظم نے جو اعتماد بحال کیا تھا وہ متزلزل اور پورا ترقیاتی عمل گومگو کا شکار ہو گیا ہے۔ اس سے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں خدشات کسی حد تک درست ثابت ہو رہے ہیں حالانکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے ادارے گزشتہ سال تک ترقی کی رفتار کے لحاظ سے پاکستان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ یہ صورت حال حکومت اور سیاسی پارٹیوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے انہیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہئے۔جس سے ترقی کی رفتار برقرار نہ رہ سکے۔

تازہ ترین