• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد(مظہرعباس) نوازشریف کا ماننا ہےکہ پارٹی ختم ہوئی ہےاور نہ ہی ان کی ‘سیاست،’ اور آئندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن ) کی قیادت سنبھالنے کیلئےمرکزی سیاست میں آنےکاان کا اعتماد بھی قائم ہے۔ ان کے چند قریبی ساتھی کچھ اور ہی سوچتے ہیں اور مانتےہیں کہ موجودہ سیاسی بحران اور پی ایم ایل(ن) کی مشکلات کافی سنجیدہ ہیں اور پاکستان مسلم لیگ (ن ) کو ‘ٹھیک’ رکھنےکیلئے کچھ اہم فیصلے کرنےکی ضرورت ہے۔ اس سوچ اور مستبقل کے چیلنجز کے ساتھ نواز شریف نے 24اکتوبرکوواپسی کا فیصلہ کیا، نیب عدالت میں پیشی سے دودن قبل ان پر ، ان کی بیٹی اور دامادا کیپٹن (ر) صفدرپر فردِجرم عائد کی گئی جبکہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار بھی نیب میں ٹرائل کاسامنا کررہے ہیں۔ نواز شریف جوپاکستان مسلم لیگ کےصدر بھی ہیں اور سابق وزیراعظم بھی، انھیں دو اہم چیلنجز کاسامناہے اورساتھ ہی انھیں پارٹی کےلیے مسقبل کا لائحہ عمل بھی طےکرناہے۔ پہلا، اتنے زیادہ مقدمات کاسامنا کیسے کرناہے اور دوسرا، ان کی احتجاجی تحریک جو یقیناً ان کی اپنی حکومت کے خلاف نہیں ہے لیکن بظاہر ان کا احتجاج سپریم کورٹ کے فیصلے اور نیب میں جاری ٹرائل کےخلاف ہے۔ ان مشکلات کاسامنا کرنے کیلئے نوازشریف کیلئےپہلا اور ضروری کام پارٹی کو اصلی حالت میں برقرار رکھناہے۔ اگرچہ پارٹی میں کوئی فارورڈ بلاک نہیں ہے لیکن اندرسےناراض آوازیں اب سامنے آرہی ہیں۔ نواز شریف کیلئےپریشان کن بات دوپارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافِ رائے ہے، ان میں شہباز شریف اور چوہدری نثارعلی خان شامل ہیں۔ لہذا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر سے ہی نواز شریف کو ایسےقریبی ساتھیوں کی جانب سےبحران کاسامناہے جنھوں نے مشکل وقت میں اُن کاساتھ دیا۔ پارٹی کے اندر دوسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جو 2008 کےبعد یا 2013 کے انتخابات کے بعد پارٹی میں شامل ہوئے۔ صورتحال کا سامنا کرنے اور خاندان میں بحران کےحل کی حکمت عملی پر ابھی تک دونوں شریف ہم خیال ہیں، کوئی بڑی مہم چلانا اور مکمل محاذآرائی کرنا نوازشریف کیلئے بہت خطرناک ہوگا۔ لہذا بحران پر قابو پانےکیلئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماکیلئےسب سے اہم کام یہ ہے کہ پارٹی کےسخت اور نرم موقف رکھنے والوں کو ایک مشترکہ ایجنڈے پرجمع کیاجائے۔ نوازشریف نے ماضی میں بھی ٹرائل کا سامنا کیاتھا لیکن وہ جنرل(ر) پرویز مشرف کے ماتحت فوجی آمریت کےدور میں تھا۔ آج انھیں کرپشن کےسنگین الزامات کاسامناہے اور 28جولائی کو پہلے ہی سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ انھیں نااہل قراردیےچکاہے اور اب وہ ایسی نیب عدالت میں ٹرائل کاسامنا کررہے ہیں جسےچھ ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے احکامات دیئے گئے ہیں۔ لہذا الٹی گنتی شروع ہوچکی ہےاور مقدمہ 19مارچ 2018 کو مکمل ہوجائےگا، اور اتفاق سے اس وقت سینٹ کے انتخابات بھی ہوں گئے۔ وہ خبریں جو میں نے گزشتہ چند دنوں میں جمع کی ہیں اگر وہ سچ ہیں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) میں سب کچھ اچھا نہیں ہے اور اب پالیسی کے معاملات میں اختلاف بڑھتا جارہاہے۔ بال اب نواز شریف کے کورٹ میں ہے اور اب پارٹی میں اورسب سے بڑھ کر خاندان میں انھیں کچھ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ واضح طور پر پارٹی پالیسی معاملات میں سخت گیر اور نرم گوشہ رکھنےوالوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ نوازشریف خود مانتےہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ جی ٹی روڈ والی پارٹی صحیح راستہ تھا کیونکہ ان کا مانناہے کہ پنجاب سے کچھ مثبت نتائیج حاصل کرنےکیلئے کچھ لوگ ان کی سیاست کو دفن کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کو تقسیم کرناچا ہتے ہیں۔ تقسیم شدہ پی ایم ایل(ن) نہ صرف ان کے مرکزی مخالف عمران خان اور پی ٹی آئی کیلئے سودمند ہوگی بلکہ چوہدری شجاعت حسین کی زیرقیادت پی ایم ایل کےدھڑوں کےلیےبھی فائدہ مندہوگی اور کچھ نشستیں پی پی پی کوبھی مل سکتی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کو کمزور کرنےکیلئے مذہبی جماعتوں کااتحاد بنانے اورجہادی تنظیموں کو سیاست کے مرکزی دھارے میں لانے کی کوشیشیں بھی انھیں نظر آرہی ہیں۔ پارٹی میں دوسری سوچ، جس کی نمائندگی شہباز شریف، چوہدری نثارعلی خان اور حتیٰ کہ راجہ ظفرالحق جیسے لوگوں کرتے ہیں، یہ سب نواز شریف کوقائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ کوئی بھی ایسی حرکت جس سے سسٹم ڈی ریل ہو، پاکستان مسلم لیگ (ن) کیلئے تباہ کن ہوگی، کیونکہ پارٹی کے کئی رہنما بڑھتے ہوئے دبائو کا سامنا نہیں کرپائیں گےاور اس طرح پارٹی مارچ 2018 میں سینٹ اور عام انتخابات جیتنے کا موقع گنوا دے گی۔ تاہم ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس عدالتی بحران سے باہرکیسے نکلاجائےخاص طورپر نیب ریفرینسز سے۔ ذرائع کاکہناہےکہ بڑے شریف صاحب کامانناہے کہ ان کی سیاست کو دفن کرنےکافیصلہ ہوچکاہے اور مصالحت یا پشیہ ورانہ طریقے سے معاملات سےنمٹنے کی کوئی پالیسی انھیں صورتحال سے بچا نہیں سکتی۔ نواز شریف کے قریبی ساتھی سمجھتےہیں کہ ان کا یقین ہے کہ اگر 28جولائی کےنااہلیت کےعدالتی فیصلے کے خلاف انھوں نے احتجاج نہ کیاہوتا اور جی ٹی روڈ کا راستہ اختیار نہ کیاہوتا تو پاکستان مسلم لیگ(ن) ختم ہوچکی ہوتی۔ نواز شریف کایہ بھی خیال تھا کہ جی ٹی روڈ کے راستےنے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں کو مزاحمت کرنےکیلئےایک نئی زندگی دی ہے اور وہ تاحال پُراعتماد ہیں کہ وہ ناصرف پارٹی بچانے کے قابل ہوجائیں گےبلکہ پارٹی کو اصلی حالت میں قائم بھی رکھیں گے۔ نواز شریف کیلئے ریاض پیرزادہ یا ظفرعلی شاہ جیسے ناراض لوگ مسئلہ نہیں ہیں بلکہ حقیقی اندرونی بحران جس سے نمٹنے میں انھیں مشکل پیش آرہی ہے، وہ شہباز شریف کی پوزیشن ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بھی مقدمات کا سامنا ہےلیکن انھیں ٹنل کے آخر میں کچھ روشنی نظر آرہی ہے، انھوں نے اپنے بڑےبھائی نواز شریف کو ان کےسخت گیرسیاسی موقف پر ںظرثانی کرنےکا مشورہ دیاہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ شہباز شریف اپنےبھائی کےخلاف بغاوت نہیں کریں گےنہ ہی چوہدری نثار ایسا کریں گےلیکن اگر نواز شریف اپنے سخت گیر موقف کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو انھوں نے متوقع نتائیج سے نواز شریف کو باخبرکردیاہے۔ جس طرح انھیں نا اہل کیاگیا، ایک تصویر لیک کرکے ان کے بیٹےکی تذلیل کی گئی اور جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جےآئی ٹی) پر اثرورسوخ کے استعمال ہونےکے سنجیدہ شکوک و شبہات نواز شریف کیلئےسب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ جس طرح کی اصطلاح ان کیلئےاور ان کی حکومت کیلئے استعمال کی گئی جیسا کہ گاڈ فادر اورسسیلئین مافیا کا حوالہ وغیرہ، اس چیز نے انھیں بہت پریشان کیا۔ اس وجہ سے انھوں نے فیصلہ کیاکہ جب تک ان کا وقار بحال نہیں ہوتا وہ لڑیں گے۔ نااہل ہونے کے بعد آئینی ترمیم کے ذریعے پی ایم ایل(ن) کا صدر بننے کا ان کے فیصلہ واضح طور پر ان کے ارادے اور نافرمانی کو ظاہر کرتاہے۔ انھوں نے کچھ عرصےکیلئے سیاست چھوڑنے کاکاخیال پہلے ہی مسترد کردیاہے، عدالتی فیصلے کو مکمل قبول کرلیاہے اور ممکنہ سزا کیلئے ذہنی طور پر خودکوتیارکرلیاہے۔ نواز شریف یہ بھی جانتے ہیں کہ کوبھی ڈیل یا این آر او کی طرح کی کوئی بھی چیز ان کے باقی ماندہ سیاسی کیرئیر کو مکمل طورپرتباہ کردیں گی۔ اگرچہ انھوں نے سال 2000 میں جلاوطنی کی ڈیل کبھی قبول نہیں کی تھی اس بار انھوں نے لڑنے یا الجھنے کا فیصلہ کیاہے۔ نواز شریف کاجو بھی موقف ہوگا وہ ہی پی ایم ایل (ن) کاہوگا، لیکن بالآخر اس کا فیصلہ انھوں نے ہی کرناہے کہ ایک ایسی صورتحال میں اپنےمنصوبےکانفاذ کیسے کرناہے جب آنےوالےدنوں میں مزید ناراض افراد سامنے آئیں گے۔ صحیح یا غلط، آئی بی کےمبینہ خط نے پارٹی میں مشکلات پیدا کی ہیں اور ریاض پیرزادہ جیسے لوگ جن کا سابقہ ریکارڈ وفاداریاں تبدیل کرنے والا ہے انھیں سب جانتے ہیں، لیکن اس طرح کے مزید افراد کے باعث فارورڈ بلاک بن سکتاہے۔ تاہم بہت سے ایم این اےاورایم پی اے کو تاحال سمجھ نہیں آرہی کہ پی ایم ایل (ن) کو چھوڑنے انھیں فائدہ ہوگا یانہیں خاص طور پر ایسے وقت میں جب وفاق اور پنجاب میں پی ایم ایل(ن) کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر نواز شریف شہباز شریف اور چوہدری نثارعلی خان کو قائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ہمیں ایک مختلف پی ایم ایل(ن) نظر آئےگی، لیکن اپنا گھر ٹھیک کیے بغیر محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرناشریف اور پی ایم ایل(ن) کیلئے تباہ کن ہوگا اور عمران خان اور خاص طورپر تحریک انصاف کےلیےرحمت ہوگا۔ گیند نواز شریف کے کورٹ میں ہے۔
تازہ ترین